Sunday, 25 October 2015

ناجائز رسم و رواج اور مسلمانوں کی حالتِ زار

انتساب : سید الشہداء، امام عالی مقام سیِّدُنا امام حسین رَضِىَ اللهُ تَعَالٰی عَـنْهُ اور تمام شہدائے کربلا رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کے نام. ُ

فرمان مصطفی ٰﷺ:
"مجھ پر درود شریف پڑهو، اللہ عزوجل تم پر اپنی رحمت بھیجے گا". (الکامل لابن عدی ج ٥ ص ٥٠٥). سبحان اللہ عَزَّوَجَلّ!

  صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!    صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّدّ

دعوتِ اسلامی کے اشاعتی ادارے مکتبۃ المدینہ کی مطبوعہ ١٩٢ صفحات پر مشتمل کتاب "سوانح کربلا" صفحہ ٥٦ تا ٥٧ پر صدر الافاضل مولانا سید محمد نعیم الدین مراد آبادی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ تحریر فرماتے ہیں : جس کا خلاصہ کچھ یوں ہے: جب مصر فتح ہوا تو ایک روز اہل مصر نے حضرت سیِّدُنا عمرو بن العاص رَضِىَ اللهُ تَعَالٰی عَـنْهُ سے عرض کی : اے امیر! ہمارے دریائے نیل کی ایک رسم ہے جب تک اس کو ادا نہ کیا جائے دریا جاری نہیں رہتا. انہوں نے استفسار فرمایا: کیا؟ کہا: ہم ایک کنواری لڑکی کو اس کے والدین سے لے کر عمدہ لباس اور نفیس زیور سے سجا کر دریائے نیل میں ڈالتے ہیں. حضرتِ سیِّدُنا عمرو بن العاص رَضِىَ اللهُ تَعَالٰی عَـنْهُ نے فرمایا : اسلام میں ہرگز ایسا نہیں ہوسکتا اور اسلام پرانی واہیات رسموں کو مٹاتا ہے. پس وہ رسم موقوف رکھی (یعنی روک دی) گئی اور دریا کی روانی کم ہوتى گئی یہاں تک کے لوگوں نے وہاں سے چلے جانے کا قصد (یعنی ارادہ) کیا، یہ دیکھ کر حضرت سیِّدُنا عمرو بن العاص رَضِىَ اللهُ تَعَالٰی عَـنْهُ نے امیرُالْمُؤمِنِین خلیفہ ثانی حضرت سیِّدُنا عمر بن خطاب رَضِىَ اللهُ تَعَالٰی عَـنْهُ کی خدمت میں تمام واقعہ لکھ بھیجا، آپ نے جواب میں تحریر فرمایا: تم نے ٹھیک کیا بیشک اسلام ایسی رسموں کو مٹاتا ہے. میرے اس خط میں ایک رقعہ ہے اس کو دریائے نیل میں ڈال دینا. حضرتِ سیِّدُنا عمرو بن العاص رَضِىَ اللهُ تَعَالٰی عَـنْهُ کے پاس جب امیرُالْمُؤمِنِین رَضِىَ اللهُ تَعَالٰی عَـنْهُ کا خط پہنچا اور انہوں نے وہ رقعہ خط میں سے نکالا تو اس میں لکھا تھا: " (اے دریائے نیل! ) اگر تو خود جاری ہے تو نہ جاری ہو اور اللہ تعالٰی نے جاری فرمایا تو میں واحد و قهار عَزَّوَجَلَّ سے عرض گزار ہوں کہ تجھے جاری فرما دے". حضرتِ سیِّدُنا عمرو بن العاص رَضِىَ اللهُ تَعَالٰی عَـنْهُ نے یہ رقعہ دریائے نیل میں ڈالا ایک رات میں سولہ ١٦ گز پانی بڑه گیا اور یہ رسم مصر سے بالکل موقوف ہو گئی.
  ( العظمة لابی الشیخ الاصبهانی ص ٣١٨ رقم ٩٤٠).

چاہیں تو اشاروں سے اپنے، کایا ہی پلٹ دیں دنیا کے
یہ شان ہے خدمت گاروں کی، سردار کا عالم کیا ہوگا

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! جس طرح اہل مصر میں دریائے نیل کو جاری رکھنے کے لیے رسم بد جاری تھی اسی طرح دور حاضر میں بھی بعض قبیح اور ناجائز رسومات زور پکڑتے جا رہی ہیں اور یہ خلاف شرع رسومات مسلمانوں کو پستی و بربادی کے عمیق گڑھے کی طرف دهکیلتی اور سنّت رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے دُور کرتی چلی جا رہی ہیں. دعوتِ اسلامی کے اشاعتی ادارے مکتبۃ المدینہ کی مطبوعہ ١٧٠ صفحات پر مشتمل ایک زبردست کتاب "اسلامی زندگی" صفحہ ١٢ تا ١٦ پر مفسر شہیر حکیم الامت حضرت مفتی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الحَنّان نے بری رسومات اور مسلمانوں کے بگڑے ہوئے حالات کی جو کچھ کیفیات بیان فرمائی ہیں ان کا خلاصہ کچھ یوں ہے: آج کون سا دل ہے جو مسلمانوں کی موجودہ پستی اور ان کی موجودہ ذلت و خواری اور ناداری پر نہ دکھتا ہو اور کون سی آنکھ ہے جو ان کی غربت، مفلسی، بے روزگاری پر آنسو نہ بہاتی ہو! حکومت ان سے چهنی، دولت سے یہ محروم ہوئے، عزت و وقار ان کا ختم ہو چکا، زمانے بھر کی مشکلات کا شکار مسلمان بن رہے ہیں، ان حالات کو دیکھ کر کلیجہ منہ کو آتا ہے، مگر دوستو! فقط رونے دھونے سے کام نہیں چلتا بلکہ ضروری یہ ہے کہ اس کے علاج پر غور کیا جائے. علاج کے لیے چند چیزیں سوچنی چاہئیں. (١) اصل بیماری کیا ہے؟ (٢) اس کی وجہ کیا؟ مرض کیوں پیدا ہوا؟ (٣) اس کا علاج کیا ہے؟ (٤) اس علاج میں پرہیز کیا کیا ہے؟ اگر ان چار باتوں میں غور کر لو تو سمجھ لو کہ علاج آسان ہے. کئی لیڈران قوم اور پیشوایان ملک نے اقوامِ مسلم کے علاج کا بیڑا اٹھایا مگر ناکامی ہی ملی اور اللہ عَزَّوَجَلَّ کے جس کسی نیک بندے نے مسلمانوں کو ان کا صحیح علاج بتایا تو بعض نادان مسلمانوں نے اس کا مذاق اڑایا، اس پر پھبتیاں کسیں زبان طعن و دراز کی، غرض کہ صحیح طبیبوں کی آواز پر کان نہ دهرا.
             مسلمانوں کی بادشاہت گئی، عزت گئی، دولت گئی، وقار گیا، صرف ایک وجہ سے وہ یہ کہ ہم نے شریعت مصطفیٰ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی پیروی چھوڑ دی، ہماری زندگی اسلامی زندگی نہ رہی. ان تمام نحوستوں کی وجہ یہ ہے کہ ہمیں اللہ عَزَّوَجَلَّ کا خوف، نبیِّ مُکَرَّم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی شرم اور آخرت کا ڈر نہ رہا. اعلیٰ حضرت، مجدد دین و ملت، ثانی ابو حنیفہ، حامی سنت، ماحی بدعت، مجدد اعظم، امام اھلسنت، حسان الہند، الشاہ امام احمد رضا خان فاضل بریلوی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ فرماتے ہیں :

دن لہو میں کھونا تجھے شب صبح تک سونا تجھے
شرم نبی،  خوف خدا،  یہ بھی نہیں وہ بھی  نہیں

       مسجدیں ہماری ویران، مسلمانوں سے سینما و تماشے آباد، ہر قسم کے عیوب مسلمانوں میں موجود ، ناجائز رسمیں ہم میں قائم ہیں، ہم کس طرح عزت پا سکتے ہیں! جیسے کسی نے کہا ہے :

    وائے  ناکامی!  متاعِ   کارواں   جاتا   رہا
     کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا

                       ٣ بیماریاں

مسلمانوں کی اصل بیماری تو احکام خدا و سنت مصطفیٰ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو چھوڑنا ہے، اب اس مرض کی وجہ سے اور بہت سی بیماریاں پیدا ہو گئیں. مسلمانوں کی بڑی بڑی تین بیماریاں ہیں: اول روزانہ نئے نئے مذہبوں کی پیداوار اور ہر آواز پر مسلمانوں کا آنکھیں بند کر کے چل پڑنا. دوسرے مسلمانوں کی آپس کی ناچاقیاں، عداوتیں اور مقدمہ بازیاں. تیسرے جاہل لوگوں کی گهڑی ہوئی خلاف شرع یا فضول رسمیں، ان تین قسم کی بیماریوں نے مسلمانوں کو تباہ کر ڈالا، برباد کر دیا، گھر سے بے گھر بنا دیا، مقروض کر دیا غرض کہ ذلت کے گڑھے میں دهکیل دیا.

              مذکورہ بیماریوں کا علاج

پہلی بیماری کا علاج یہ ہے کہ ہر بدمذہب کی صحبت سے بچو، اس عالمِ حق اور صحیح العقیدہ شخص کے پاس بیٹھو جس کی صحبت فیض اثر سے سرکار مدینہ، قرار قلب و سینہ، فیض گنجینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا عشق اور اتباع شریعت کا جذبہ پیدا ہو.
       دوسری بیماری کا علاج یہ ہے کہ اکثر فتنہ و فساد کی جڑ دو چیزیں ہیں: ایک غصہ اور اپنی بڑائی اور دوسرے حقوقِ شرعیہ سے غفلت. ہر شخص چاہتا ہے کہ میں سب سے اونچا رہوں اور سب میرے حقوق ادا کریں مگر میں کسی کا حق ادا نہ کروں اگر ہماری طبیعت میں سے غرور و تکبر نکل جائے، عاجزی اور تواضع پیدا ہو جائے، ہم میں سے ہر شخص دوسرے کے حقوق کا خیال رکھے تو اِنشاءاللہ عَزَّوَجَلَّ کبھی جھگڑے کی نوبت ہی نہ آئے.
       تیسری بیماری یہ ہے کہ ہمارے اکثر مسلمانوں میں بچے کی پیدائش سے لے کر مرنے تک مختلف موقعوں پر ایسی تباہ کن رسمیں جاری ہیں جنہوں نے مسلمانوں کی جڑیں کھوکھلی کر دی ہیں. شادی بیاہ کی رسموں کی بدولت ہزاروں مسلمانوں کی جائیدادیں، مکانات، دکانیں سودی قرضے میں چلی گئیں اور بہت سے اعلیٰ خاندانوں کے لوگ آج کرایہ کے مکانوں میں گزر کر رہے ہیں اور ٹھوکریں کھاتے پھرتے ہیں. اپنی قوم کی اس مصیبت کو دیکھ کر میرا دل بهر آیا، طبیعت میں جوش پیدا ہوا کہ کچھ خدمت کروں. روشنائی کے چند قطرے حقیقت میں میرے آنسوؤں کے قطرے ہیں، خدا کرے کہ اس سے قوم کی اصلاح ہو جائے، میں نے یہ محسوس کیا کہ بہت سے لوگ ان شادی بیاہ اور دیگر فضول رسموں سے بیزار تو ہیں مگر برادری کے طعنوں اور اپنی ناک کٹنے کے خوف سے جس طرح ہو سکتا ہے قرض لے کر ان جاہلانہ رسموں کو پورا کرتے ہیں. کوئی تو ایسا مرد مجاہد ہو جو بلا خوف و خطر ہر ایک کے طعنے برداشت کر کے تمام ناجائز و حرام رسموں پر لات مار دے اور سنّت سرکار کائنات صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو زندہ کر کے دکھا دے کہ جو شخص سنّت کو زندہ کرے اسے سو شہیدوں کا ثواب ملتا ہے. کیونکہ شہید تو ایک دفعہ تلوار کا زخم کها کر دنیا سے پردہ کر جاتا ہے مگر یہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کا نیک بندہ عمر بھر لوگوں کی زبانوں کے زخم کھاتا رہتا ہے. واضح رہے کہ مروجہ رسمیں دو قسم کی ہیں: ایک تو وہ جو شرعاً ناجائز ہیں. دوسری وہ جو تباہ کن ہیں اور بہت دفعہ ان کے پورا کرنے کے لیے مسلمان سودی قرض کی نُحوست میں بھی مبتلا ہو جاتا ہے. حالانکہ سود کا لین دین گناہ کبیرہ ہے اور یوں یہ رسومات بہت ساری آفات میں پھنسا دیتی ہیں، ان سے دوری ہی میں آفیت ہے.
              ( اسلامی زندگی ص ١٢ تا ١٦ بتصرف).

         شادیوں  میں  مت  گناہ  نادان  کر
         خانہ  بربادی  کا  مت  سامان   کر
         چھوڑ دے سارے غلط رسم و رواج
         سنتوں  پر  چلنے  کا  کر  عہد  آج
         خوب   کر   ذکر  خدا  و  مصطَفٰے
         دل مدینہ ان  کی  یادوں  سے  بناَ

طالب دعا : حافظ محمد احسان بشیر،فرسٹ ایئر ایم بی بی ایس، نشتر میڈیکل کالج، ملتان، پنجاب، پاکستان. 

  صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!    صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّدّ

No comments:

Post a Comment