اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ علٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ ط اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ ط بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّ حِیْم ط
شیطٰن لاکھ سُستی دلائے یہ آرٹیکل اوّل تا آخِر پڑھ لیجئے اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّوَجَلَّ آپ کا ایمان تازہ ہوجائے گا.
دُرُود شریف کی فضیلت
نبیوں کے سُلطان، رَحمتِ عالمیان، سردارِ دوجہان صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا فرمانِ بَرَکت نشان ہے: ’’جس نے مجھ پر روزِ جُمُعہ دو سو ۲۰۰ بار دُرُودِ پاک پڑھا اُس کے ۲۰۰ سال کے گناہ مُعاف ہوں گے‘‘.
(جَمْعُ الْجَوامِع لِلسُّیُوطی)
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیْب ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! ١٨ ذُوالحِجَّۃِ الْحرام ٣٥ سنِ ہجری کو اللہُ عَزَّوَجَل کے پیارے نبی، مکّی مَدَنی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے جلیلُ القَدْر صَحابی عثمانِ غنی رضی اللہ تعالٰی عنہ نہایت مظلومیَّت کے ساتھ شہید کئے گئے. آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ خُلَفائے راشِدین [یعنی حضرت سیِّدُنا ابوبکر صِدّیق، حضرت سیِّدُنا عمر فاروق، حضرت سیِّدُناعثمان ِغنی، حضرت سیِّدُنا علی المرتضی (رِضْوَانُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ اَجْمَعِیْن)] میں تیسرے خلیفہ ہیں. آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ کی کُنْیَت ’’ابو عَمْرو‘‘ اور لقب جامع القراٰن ہے نیز ایک لقب ’’ذُوالنُّورَین‘‘ (دو نور والے) بھی ہے، کیونکہ اللہُ غَفُور عَزَّ وَجَل کے نور، شافعِ یومُ النُّشور، شاہِ غَیور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اپنی دو شہزادیاں یکے بعد دِیگرے حضرت سیِّدُنا عثمانِ غنی رضی اللہ تعالٰی عنہ کے نکاح میں دِی تھیں۔ ؎
نُور کی سرکار سے پایا دو شالہ نُور کا
ہو مبارَک تم کو ذُوالنُّورَین جوڑا نور کا
(حدائقِ بخشش شریف)
آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے آغازِ اسلام ہی میں قَبولِ اسلام کر لیا تھا، آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ کو ’’صاحِبُ الْھِجْرَتَیْن‘‘ (یعنی دو ہجرتوں والے) کہا جاتا ہے کیونکہ آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے پہلے حبشہ اور پھر مدینۃُ الْمنوَّرہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً کی طرف ہجرت فرمائی.
دو بار جنَّت خریدی
امیرُ المؤمنین حضرتِ سیِّدُنا عثمانِ غنی رضی اللہ تعالٰی عنہ کی شانِ والا بَہُت بُلند وبالا ہے، آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اپنی مبارَک زندگی میں نبیِّ رَحْمت، شفیعِ اُمّت، مالِکِ جنّت ، تاجدارِ نُبُوَّت، شَہَنْشاہِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم َسے دو مرتبہ جنّت خریدی، ایک مرتبہ ’’بیرِرُومہ‘‘ یہودی سے خرید کر مسلمانوں کے پانی پینے کے لیے وَقْف کر کے اور دُوسری بار ’’جَیْشِ عُسْرَت‘‘ کے موقع پر ۔چُنانچِہ’’ سُنَنِ تِرمِذی‘‘ میں ہے:
"حضرتِ سیِّدُنا عبدُالرحمن بن خَبّاب رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مَروی ہے کہ میں بارگا ہِ نَبَوی علی صاحبھا الصلوۃ والسلام میں حاضِر تھا اور حُضورِ اکرم، نور ِمُجَسَّم ،رسولِ محترم، رَحْمتِ عالَم ، شاہِ بنی آدم، نبیِّ مُحْتَشَم، سراپا جُود و کرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ صَحابۂ کرام عَلَيهِمُ الرِّضْوَان کو ’’جَیشِ عُسْرَت‘‘ (یعنی غَزوۂ تَبوک ) کی تیّاری کیلئے ترغیب ارشاد فرما رہے تھے. حضرتِ سیِّدُنا عثمان بن عَفّان رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اُٹھ کر عَرْض کی: یا رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پالان اور دیگر مُتَعَلِّقَہ سامان سَمیت سو ۱۰۰ اُونٹ میرے ذِمّے ہیں. حُضور سراپا نور، فیض گَنجور، شاہِ غَیُور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے صَحابۂ کرام عَلَيهِمُ الرِّضْوَان سے پھر تَرغِیباً فرمایا. تو حضرتِ سیِّدُنا عثمانِ غنی رضی اللہ تعالٰی عنہ دوبارہ کھڑے ہوئے اور عرض کی: یا رسولَ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ! میں تمام سامان سَمیت دوسو ۲۰۰ اُونٹ حاضِر کرنے کی ذِمّہ داری لیتا ہوں. دو جہاں کے سلطان، سرورِ ذیشان، محبوبِ رَحمٰن صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے صَحابۂ کرام عَلَيهِمُ الرِّضْوَان سے پھر تَرغِیباً ارشاد فرمایا تو حضرتِ سیِّدُنا عثمانِ غنی رضی اللہ تعالٰی عنہ نے عرض کی: یا رسولَ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ میں مع سامان تین سو ۳۰۰ اُونٹ اپنے ذمّے قَبول کرتا ہوں. راوی فرماتے ہیں : میں نے دیکھا کہ حُضورِ انور، مدینے کے تاجور، شافِعِ مَحْشر، بِاِذنِ ربِّ اکبر غیبوں سے باخبر، محبوبِ داوَر صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے یہ سن کر مِنبرِ مُنَوَّر سے نیچے تشریف لاکر دو مرتبہ فرمایا: ’’ آج سے عثمان (رضی اللہ تعالٰی عنہ) جوکچھ کرے اُس پر مُواخَذَہ (یعنی پوچھ گچھ) نہیں.‘‘
(تِرْمِذی ج۵ ص۳۹۱حدیث ۳۷۲۰)
اِمامُ الاَسخِیاء! کردو عطا جذبہ سخاوت کا!
نکل جائے ہمارے دل سے حُبِّ دولتِ فانی
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
٩٥٠ اُونٹ اور ٥٠ گھوڑے
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! آج کل دیکھا گیا ہے کچھ حضرات دوسروں کی دیکھا دیکھی جذبات میں آ کر چندہ لکھوا تو دیتے ہیں مگر جب دینے کی باری آتی ہے تو ان پر بھاری پڑ جاتا ہے حتّٰی کہ بعض تو دیتے بھی نہیں! مگر قربان جائیے محبوبِ مصطَفٰے، سیِّدُ الْاَسْخیاء، عثمانِ باحیا رضی اللہ تعالٰی عنہ کے جُود و سخا پر کہ آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اپنے اعلان سے بَہُت زیادہ چندہ پیش کیا چُنانچِہ مُفسّر ِشَہیر، حکیمُ الامّت، حضرت مفتی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الحَنّان اِس حدیث پاک کے تَحْت فرماتے ہیں: خیال رہے کہ یہ تو اُن کا اعلان تھا مگر حاضِر کرنے کے وَقت آپ (رضی اللہ تعالٰی عنہ) نے ٩٥٠ اُونٹ، ٥٠ گھوڑے اور ١٠٠٠ اشرفیاں پیش کیں ، پھر بعد میں ١٠ ہزار اشرفیاں اور پیش کیں. (مفتی صاحب مزید فر ماتے ہیں ) خیال رہے کہ آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے پہلی بار میں ایک ١٠٠ کا اعلان کیا، دُوسری بار ١٠٠ اونٹ کے علاوہ اور ٢٠٠ کا، تیسری بار اور ٣٠٠ کا کل ٦٠٠ اُونٹ (پیش کرنے) کا اعلان فرمایا.
(مراٰۃ المناجیح ج ۸ ص ۳۹۵)
مجھے گر مل گیا بحرِ سخا کا ایک بھی قطرہ
مِرے آگے زمانے بھر کی ہوگی ہیچ سلطانی
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
غذا میں مثالی سادگی
حضرتِ سیِّدُناشُرَ حْبِیْل بن مسلم رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ امیرُالْمُؤمِنِین، حضرت سیِّدُنا عثمانِ غنی رضی اللہ تعالٰی عنہ لوگوں کو امیروں والا کھانا کھلاتے اور خود گھر جا کر سرکہ اور زیتون پر گزارہ کرتے.
(اَلزُّہْد لِلامام اَحمد ص ۱۵۵ حدیث ۶۸۴).
کبھی سیدھا ہاتھ شَرْمْ گاہ کو نہیں لگایا
امیرُالْمُؤمِنِین، حضرت سیِّدُنا عثمانِ غنی رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا: جس ہاتھ سے میں نے رسولَ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے دستِ مبارک پر بَیْعَت کی وہ (یعنی سیدھا ہاتھ ) پھر میں نے کبھی بھی اپنی شَرْمْ گاہ کو نہیں لگایا.
( ابن ماجہ ج۱ ص ۱۹۸حدیث ۳۱۱).
حضرتِ سیِّدُنا عثمانِ غنی رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا: ’’ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی قسم! میں نے نہ تو زمانۂ جاہِلیّت میں کبھی بدکاری کی اور نہ ہی اسلام قَبول کرنے کے بعد.
(حلیۃُ الاولیاء ج ۱ ص ۹۹).
بند کمرے میں بھی نِرالی شَرْم و حیا
حضر تِ سیِّدُنا حسن بصری عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِی نے امیرُالْمُؤمِنِین حضرت سیِّدُنا عُثمانِ غنی رضی اللہ تعالٰی عنہ کی شرم و حیا کی شدّت بیان کرتے ہوئے فرمایا: ’’اگر آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ کسی کمرے میں ہوں اور اُس کا دروازہ بھی بند ہو تب بھی نہانے کے لئے کپڑے نہ اتارتے اورحیا کی وجہ سے کمر سیدھی نہ کرتے تھے.‘‘
(حِلْیۃُ الاولیاء ج ۱ ص ۹۴ حدیث ۱۵۹).
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
اپنے مَدْفن کی خبر دیدی!
حضر تِ سیِّدُ نا امام مالِک علیہ رحمۃ اللہِ الملک فرماتے ہیں کہ امیرُ المؤمنین حضرت سیِّدُنا عثمان ِغنی رضی اللہ تعالٰی عنہ ایک مرتبہ مدینۃُ الْمنوَّرہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً کے قبرِستان ’’جنَّتُ البقیع‘‘ کے اُس حصّے میں تشریف لے گئے جو ’’حَشِّ کَوْکَب‘‘ کہلاتا تھا، آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے وہاں ایک جگہ پر کھڑے ہو کر فرمایا: ’’عنقریب یہاں ایک شخص دفْن کیا جائے گا‘‘. چُنانچِہ اس کے تھوڑے ہی عرصے بعد آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ کی شہا دت ہو گئی اور باغیوں نے جنازہ ٔمبارَکہ کے ساتھ اس قَدَر اُودھم بازی کی کہ نہ روضۂ منوَّرہ کے قریب دَفْن کیا جا سکا نہ جنَّتُ البقیع کے اُس حصّے میں مدفون کیے جاسکے جو صَحابۂ کِبار (یعنی بڑے صحابۂ کرام عَلَيهِمُ الّرِضْوَان) کا قبرستان تھا بلکہ سب سے دُور الگ تھلگ ’’حَشِّ کَوْکَب‘‘ میں آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ سپردِ خاک کئے گئے جہاں کوئی سو چ بھی نہیں سکتا تھا کیو نکہ اُس وقت تک وہا ں کوئی قبر ہی نہ تھی.
(کراماتِ صحابہ ص ۹۶، الریاِّضُ النَّضرۃ ج ۳ ص ۴۱ وغیرہ).
اللہ سے کیا پیار ہے عثمانِ غنی کا
محبوبِ خدا یار ہے عثمانِ غنی کا
(ذوقِ نعت)
طالب دعا : حافظ محمد احسان بشیر، فرسٹ ایئر ایم بی بی ایس، نشتر میڈیکل کالج، ملتان، پنجاب، پاکستان.
nice
ReplyDeletenice
ReplyDeleteThanks
Delete