Sunday, 18 October 2015

ویڈیو گیمز کے بارے میں امریکیوں کا حیرت انگیز اعتِراف

بیاد : شہدائے کربلا رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ علٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ ط اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ ط  بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّ حِیْم ط

شیطٰن لاکھ سُستی دلائے یہ آرٹیکل اوّل تا آخِر پڑھ لیجئے اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّوَجَلَّ آپ کا ایمان تازہ ہوجائے گا.
             دُرُودُ شریف کی فضیلت

نبیوں کے سُلطان، رَحمتِ عالمیان، سردارِ دوجہان صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  کا فرمانِ بَرَکت نشان ہے:
" جس نے مجھ پر ایک بار درود پاک پڑھا اللہ عزوجل اس پر دس رحمتیں بھیجتا ہے ". ( مسلم ص ٢١٦ حدیث ٤٠٨ ). سبحان اللہ عزوجل!

صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیْب !      صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

               میں وِڈیو گیم کا عادی تھا

شَکر گڑھ ضلع نارَوْوال ( صوبہ پنجاب پاکستان ) کے ایک اسلامی بھائی کا بیان ہے کہ میں  بچپن میں وِڈیو گیم میں روزانہ گھنٹوں وَقت ضائع کیاکرتا تھا، نَمازوں کی ادائیگی کا کوئی معمول نہیں تھا. میری قسمت کا ستارہ اُس وَقت چمکا جب میرے والِدِ محترم نے مجھے مدرَسۃُ المدینہ میں داخِل کروادیا، اَلْحَمْدُ للہ میں نے وہاں پہلے قراٰنِ پاک ناظِرہ ختم کیا، اس کے بعد حافظِ قراٰن بنا اور ساتھ ہی ساتھ میری اَخلاقی تربیت کا بھی سلسلہ ہوا. اَلْحَمْدُ للہ دعوتِ اسلامی کے مدرسۃُ المدینہ کی بَرَکت سے میں پنج وقتہ نَمازوں کا پابند ہوگیا اور سنّتوں بھرا مَدَنی لباس پہننے لگا. کل تک پانچوں نَمازیں چھوڑ دینے والا اللہ عَزَّوَجَلَّ کی رَحمت سے اب تہجُّد اور اِشْراق و چاشت کے نوافِل کی بہاریں لوٹنے والا بن گیا. جب مجھے دعوتِ اسلامی کی برکتیں ملیں تو میں نے ایک مَدَنی مُنّے کے والِد صاحِب پر انفِرادی کوشِش کی کہ آپ بھی اپنے بیٹے کو مدرَسۃُ المدینہ میں  داخِل کروا دیجئے. پہلے تو انہوں نے انکار کیا پھر جب میں نے انہیں اپنی مثال دی کہ میں کل تک نماز نہیں پڑھتا تھا، ننگے سر گھومتا تھا مگر اَلْحَمْدُ للہ آج دعوتِ اسلامی کے طفیل میرے سر پر عمامہ شریف ہے اور میں پانچوں نمازوں کی پابندی کرنے والا بن گیا ہوں تو انہوں نے اپنے بیٹے کو مدرَسۃُ المدینہ میں داخِلہ دلوا دیا جہاں اس نے پہلے قراٰنِ کریم ناظِرہ پڑھا اور اب حِفْظ کرنے کی سعادت پارہا ہے جبکہ میں  تادمِ تحریر اَلْحَمْدُ للہ جامعۃُ المدینہ میں درسِ نظامی کا طالبِ علم ہوں.

        اللہ کرم ایسا کرے تجھ  پہ  جہاں  میں
        اے دعوتِ اسلامی تِری دُھوم مچی ہو
                                 (وسائلِ بخشش ص ۱۹۳).

صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیْب !     صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

                         وِڈیو گیم

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو اور بہنو! دیکھا آپ نے کہ وِڈیو گیم کی لَت میں مُبتَلا بچّے کو جب دعوتِ اسلامی کے مدرسۃُ المدینہ کا مَدَنی ماحول ملا تو وہ نیک نَمازی اور پرہیز گار بن گیا. آپ بھی دعوتِ اسلامی کے مَدَنی ماحول سے ہمیشہ وابَستہ (Attach) رہئے. اگر خدانخواستہ آپ وِڈیو گیم کی عادت میں مبتَلا ہیں تو ہاتھوں ہاتھ اُس کی عادت چُھڑانے کی کوشش کیجئے.

     وِڈیو گیم کے ذَرِیعے دین و ایمان کا نقصان

بَہُت کم لوگوں کو اس بات کا احساس ہوگا کہ مسلمانوں کی نئی نسلوں کو تباہ کرنے کیلئے دشمنانِ اسلام ایسی ایسی گیمز تیار کر رہے ہیں کہ بچّہ کھیل ہی کھیل میں نہ صِرْف عَمَلاً اسلام سے دُور چلا جائے بلکہ مَعَا ذَاللہ اس کے دل میں دینِ اسلام ہی کی نفرت بیٹھ جائے مَثَلاً وِڈیو گیم کھیلنے والا جس قسم کے کرداروں کو اسکرین پر دیکھتا ہے ان میں ایسے کردار بھی شامل ہوتے ہیں جن کے ہاتھوں اسلامی حُلیے مَثَلاً داڑھی اور ٹوپی یا عمامے میں ملبوس ’’کِرداروں‘‘ کو مَروایا جاتا ہے یا پھر اسلامی کرداروں کو ’’دہشت گرد‘‘ کے روپ میں پیش کیا جاتا ہے، اس قسم کی گیمیں کھیلنے والے کے دل میں  اسلام کی مَحَبَّت بڑھے گی یا کم ہوگی! اس کا جواب آپ خود ہی اپنے ضمیر سے حاصل کیجئے.

       وِڈیو گیمزسے ہونے والی بیماریاں

وِڈیو گیمز کھیلنے والا نظر کی کمزوری، پٹھوں (Muscles) کے کِھنچاؤ اور سر درد جیسے اَمراض میں مبتلا ہوسکتا ہے.

        وِڈیو گیمز کی لرزہ خیز تباہ کاریاں

حیا سوز لباس میں ملبوس وڈیو گیم کے کرداروں کو دیکھ دیکھ کر بچّوں کی ذہنی پاکیزگی بے حیائی کے گندے نالے میں ڈوب جاتی ہے اور بدنِگاہی کا مَرَض ان کی نَس نَس میں اُتر جاتا ہے، ’’وڈیو گیمز کلب‘‘ پر مُنَشِّیات فروشوں کی ’’خاص نظر‘‘ رہتی ہے، کئی بچّے اور نوجوان ان کے چُنگل میں پھنس جاتے ہیں اور بعض تو ایسا پھنستے ہیں کہ ان کو عمر بھر رِہائی نصیب نہیں ہوتی، ایسے مقامات پر بچوں سے ’’گندے کام‘‘ کئے جاتے ہیں خُصُوصاً وہ بچّے بدکار لوگوں کی ہَوَس کا شکار بنتے ہیں جو گھر والوں سے چُھپ کر وِڈیو گیم کھیلتے ہیں. مار دھاڑ اور قتل و غارت گری کے مناظر سے بھرپور گیم کھیل کھیل کر بچّوں میں رحم دلی، صبر، مُعافی اور درگزر کا جذبہ کم یا ختم ہو جاتا ہے اور دیکھی ہوئی چیزوں کا عملی مظاہرہ کرنے کے شوق میں کچّی عمر کے نوجوان (Teenager یعنی ١٣ سے ١٩ سال والے) لُوٹ مار، چوری چَکاری، گندے کاموں، حتّٰی کہ قتل جیسے جرائم میں مُلوَّث ہوجاتے ہیں!

       وِڈیو گیمز قتل و غارت سکھاتے ہیں

وِڈیو گیمز اکثر ظلم و تشدُّد کے مناظر سے بھرپور ہوتے ہیں، بعض گیموں میں وہ لوگ بھی ’’ہیرو‘‘ کی فائرنگ کا نشانہ بنتے دکھائے جاتے ہیں جو گھٹنوں کے بل بیٹھ کر گڑ گڑاتے ہوئے اُس سے رَحم کی درخواست کرتے اور موت سے بچنے کے لیے چیخ و پکار مچا رہے ہوتے ہیں، لیکن وڈیو گیم کھیلنے والا فائنل راؤنڈ تک پہنچنے کے لیے ان سب کو بندوق کی گولیوں سے بھونتا ہوا آگے بڑھتا چلا جاتا ہے. ہر طرف خون ہی خون دکھائی دیتا ہے اور گیم کھیلنے والا ان تمام مناظر سے لطف اندوز ہوتا ہے. بعض  گیموں میں ’’ہیرو‘‘ کار (Car) میں سوار ہوکر لوگوں کو کچلتا ہوا چلا جاتا ہے، بعض گیموں میں انسان کو ذَبح کرنے اور سر کاٹنے کے ہیبت ناک
مناظِر دکھائے جاتے ہیں، بعض گیموں میں مکانات اور پُل بم دھماکوں سے اُڑانے کے مناظر دکھائے جاتے ہیں. کیا یہ سب کچھ بچّوں کے کچّے ذِہن کے لیے نقصان دہ نہیں؟ اگر یہ کہا جائے تو شاید بے جا نہ ہو گا کہ اس وقت مُعاشرے میں تیزی کے ساتھ بڑھنے والے جرائم میں وِڈیو گیمز کا نہایت گہرا تعلُّق ہے!

                  امریکیوں کا اعتِراف

امریکہ میں  کی گئی ایک ریسرچ کے مطابق ٨٠ فیصد نوجوان مار دھاڑ اور تَشَدُّد سے بھرپور گیمز کھیلنا پسند کرتے ہیں. ایک امریکی ماہِرِ نفسیات کا کہنا ہے: ’’ ہم کمپیوٹر گیم کو محض کھیل سمجھتے ہیں لیکن بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ یہ ہمارے مُعاشَرے کو غَلَط سَمْت لے کر جا رہے ہیں اور ہم اپنے بچّوں کو کمپیوٹر گیم کے ذَرِیعے وہ سب کچھ سکھا رہے ہیں جو کسی اور طریقے سے بَہُت دیر میں سیکھا جاسکتا ہے، کمپیوٹر کی مدد سے بچّے نہ صرف جدید (یعنی نئے) ہتھیاروں کے استعمال میں مہارت حاصل کر لیتے ہیں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ وہ انسانوں اور دوسرے جانداروں کو گولیوں کا نشانہ بنانا بھی سیکھ لیتے ہیں‘‘.

  وِڈیو گیمز کی نُحوست کے ١٤ عبرت ناک واقعات

(لوگوں اور وڈیو گیمز کے نام حذف کردئیے گئے  ہیں ).

١. کولمبئین ہائی اسکول کے ١٧ اور ١٨ سالہ دو طالب علموں نے ٢٠ اپریل ١٩٩٩ء کو ١٢ اسٹوڈنٹس اور ایک ٹیچر کو قتل کردیا، یہ دونوں طالب علم ایک وِڈیوگیم کی لت میں مبتلا تھے اور انہوں نے یہ گھناؤنا فعل اُسی وِڈیو گیم کے انداز میں کیا. 
٢. اپریل ٢٠٠٠ ء میں ١٦ سالہ اسپینش (SPANISH) لڑکے نے ایک وِڈیو گیم کے ہیرو کی نقل کرتے ہوئے سچ مچ اپنے ماں باپ اور بہن کو ’’کاٹانا تلوار‘‘ سے قتل کر دیا.
٣. نومبر ٢٠٠١ ء میں ٢١ سالہ امریکی نوجوان نے خودکشی کر لی، اُس کی ماں کا کہنا تھا کہ وہ ایک وِڈیو گیم کو نشے کی حد تک کھیلتا تھا.
٤. فروری ٢٠٠٣ ء میں ١٦ سالہ امریکی لڑکے نے ایک وِڈیو گیم سے مُتَأَثِر ہو کر ایک بچّی کو قتل کر دیا.
٥. ٧ جون ٢٠٠٣ ء کو ١٨ سالہ نوجوان نے ایک وِڈیو گیم سے مُتَأَثِر ہو کر دو پولیس والوں کو گولی مار کر ہلاک کردیا، بالآخِر اُسے چوری کی کار سمیت گرفتار کرلیا گیا.
٦. دو امریکی سوتیلے بھائیوں نے جن کی عمر ١٤ اور ١٦ سال تھی، ٢٥ جون ٢٠٠٣ ء کو ایک رائفل کے ذَرِیعے ٤٥ سالہ عورت کو ہلاک اور ١٦ سالہ لڑکی کو زخمی کر دیا، یہ دونوں ایک گیم کی نقل کررہے تھے.
٧. لیسسٹر برطانیہ میں ٢٧ فروری ٢٠٠٧ ء کو ١٧ سالہ نوجوان نے ١٤ سالہ لڑکے کو پارک میں لے جاکر ہتھوڑے (Hammer) اور چھری کے پے در پے وار کر کے ہلاک کردیا، تحقیقات سے پتا چلا کہ وہ ایک وِڈیو گیم سے مُتَأَثِر تھا.
٨. ٢٧ دسمبر ٢٠٠٤ ء کو ١٣ سالہ لڑکے نے ٢٤  منزِلہ عمارت سے چھلانگ لگا کر خودکُشی کرلی، موت سے قبل وہ ٣٦ گھنٹے سے مسلسل ایک وِڈیو گیم کھیل رہا تھا.
٩. اگست ٢٠٠٥ ء کو ’’جنوبی کوریا‘‘ کا ایک شخص  ٥٠ گھنٹے تک مسلسل ایک وِڈیو گیم کھیلتا رہا اور کھیلتے کھیلتے موت کا شکار ہو گیا.
١٠. جنوری ٢٠٠٦ ء کو ٹورنٹو (کینیڈا ) کی سڑکوں پر ١٨ سالہ دو نوجوان لڑکوں نے ایک وڈیو گیم کی نقل کرتے ہوئے کار کی ریس کی شرط لگائی اور اس ریس کے دوران ہونے والے حادثے میں ایک ٹیکسی ڈرائیور اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھا. 
١١. ستمبر ٢٠٠٧ ء میں چین کا ایک شخص انٹرنیٹ پر مسلسل تین دن سے آن لائن گیم کھیلتا رہا، بالآخر کھیل کے اس نشے نے اس کی جان لے لی.
١٢. دسمبر ٢٠٠٧ ء میں ایک روسی شخص نے ایک وڈیو گیم کی طرح سچ مُچ میں فائٹنگ (یعنی مار دھاڑ) کی شرط رکھی اور اس جھگڑے میں مارا گیا. ١٣. ١٤ اپریل ٢٠٠٩ ء کو ٩ سالہ بچہ جو کہ بروکلن، نیویارک میں رہتا تھا ایک گیم کی نقالی کرتے ہوئے ایک عارضی پیراشوٹ لے کر چھت سے کُودا اور موت کے گھاٹ اتر گیا.
١٤. مارچ ٢٠١٠ ء میں تین سالہ بچّی اپنے باپ کی بندوق کو گیم کا ’’ریموٹ‘‘ سمجھ کر چلانے لگی اور ایک گولی سے اُس کی جان چلی گئی.
(یہ سب خبریں نیٹ پر جنر یشن نیکسٹ آئن لائن میگزین، اکتوبر ٢٠١٠ ء سے لی گئی ہیں ).

       میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو اور بہنو! وِڈیو گیمز کے دینی و دُنیوی نقصانات آپ نے پڑھے، اب ہمیشہ ہمیشہ کیلئے وِڈیو گیمز کھیلنے سے دُور رہنے کا ذہن بنا لیجئے، اِس میں  آخِرت کی بھلائی کے ساتھ ساتھ آپ کے پیسوں  اور قیمتی وقت کی بھی بچت ہے.
( اس آرٹیکل کا مواد حضرت علامہ مولانا محمد الیاس عطار قادری رضوی ضیائی دامت برکاتہم العالیہ کے رسالہ "نور والا چہرہ" سے لیا گیا ہے ).

طالب دعا : حافظ محمد احسان بشیر، فرسٹ ایئر ایم بی بی ایس، نشتر میڈیکل کالج، ملتان، پنجاب، پاکستان.

1 comment: