Thursday, 29 October 2015

خونی کی توبہ

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ ط اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ؕ

                   دُرُوْد ِپاک کی فضیلت

شیخِ طریقت، امیرِاہلسنّت، بانیِ دعوتِ اسلامی حضرت علامہ مولانا ابو بلال محمد الیاس عطارقادری رضوی ضیائی دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ اپنی مناجاتوں، نعتوں اور منقبتوں کے مُعطَّر و مُعَنْبر مدنی گلدستے ’’وسائلِ بخشش‘‘ میں دُرودِ پاک کی فضیلت نقل فرماتے ہیں کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے محبوب، دانائے غُیُوب، مُنَزَّہٌ عن العُیُوب صَلَّی اللہُ تَعَالیٰ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا فرمانِ عظمت نشان ہے: جس نے دن اور رات میں میری طرف شوق و محبت کی وجہ سے تین تین مرتبہ ُدرودِ پاک پڑھا اللہ عَزَّوَجَلَّ پر حق ہے کہ وہ اُس کے اُس دن اور رات کے گناہ بخش دے". (الترغیب والترھیب، ۲/۳۲۸، حدیث: ۲۳).

  صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!    صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

                    خونی کی توبہ

کوٹ مٹھن (ضلع راجن پور، پنجاب) کے محلہ عزیز بھٹی کے مقیم اسلامی بھائی کی گناہوں بھری زندگی کے احوال نوک پلک سَنوارنے کے بعد کچھ اس طرح ہیں:
میں ایک عصیاں شعار نوجوان تھا، گناہوں کے جنگل میں بھٹکتا پھر رہا تھا. دل گناہوں کی کثرت کے سبب اس قدر سختی کا شکار تھا کہ میں اپنی قبر و آخرت سے یکسر غافل ہوچکا تھا، میری غفلت کا اندازہ اس سے با خوبی لگایا جاسکتا ہے کہ میں نماز جیسی اہم عبادت کی ادائیگی سے دور اور دنیا کی محبت میں مخمور تھا، بس دنیا کی راحتیں حاصل کرنے کی دُھن سر پر سوار رہتی، بُرے دوستوں کی صحبت کے سبب بداخلاق اور نہایت غصیلا تھا. معمولی باتوں پر لڑائی جھگڑے مول لینا، ہر ایک کے ساتھ بدتمیزی سے پیش آنا، خلافِ مزاج بات پر بہن بھائیوں کو مارنا پیٹنا میری عادتِ بد میں شامل تھا، چھوٹے بہن بھائیوں کو اس قدر مارتا تھا کہ ان کے جسم زخمی ہو جاتے، خون بہتا، شدت تکلیف سے چیختے چلاتے، روتے فریاد کرتے مگر میرے دل کی سختی کا یہ عالم تھا کہ ان کا بہتا لہو اور بہتے آنسو دیکھ کر بھی مجھے رحم نہ آتا اور میں اپنی روش پر قائم رہتا جب کبھی موقع ملتا انہیں مار پیٹ کر ہی دم لیتا. میرا یہ خون خرابہ صرف گھر کی حد تک محدود نہ تھا بلکہ باہر بھی اگر کوئی میرے خلاف بات کرتا تو اس پر بھی تشدد کرتا اور بارہا مخالف پر ایسا حملہ کرتا کہ اس کا جسم زخموں سے گھائل اور خون سے آلودہ ہوجاتا لوگ بڑی مشکل سے مجھ پر قابو پاتے، کئی لوگوں کا سر پھاڑ چکا تھا، میری اسی خون ریزی کی عادت سے اہل علاقہ خوف زدہ رہتے، مجھ سے اپنا دامن بچاتے یہاں تک کہ میں علاقے میں خونی کے نام سے مشہور ہوگیا، میرے بارے میں لوگ ایک دوسرے سے کہتے بھائی اس سے بچنا یہ تو بڑا ہی خطرناک ہے، خون خرابہ کرنا تو اس کا معمول ہے، الغرض میں علاقے میں نفرت بھری نظروں سے دیکھا جانے لگا، کوئی میرے پاس نہ آتا، مجھے دور سے دیکھ کر لوگ کہتے وہ دیکھو خونی آرہاہے، یوں میں خونی کے نام سے مشہور ہوگیا. افسوس میں اپنی عادات بد میں اس قدر راسخ ہوچکا تھا کہ نہ مجھے اپنی عزت کا خیال تھا نہ ہی خاندان کی شرافت کا کچھ پاس، بس جوانی کے نشے میں مست رہنا اور لوگوں پر ظلم وستم کرنا اور سمجھانے والوں کو خاطر میں نہ لانا میرا کام تھا. میری ان کارستانیوں کی وجہ سے گھر والے بھی پریشان تھے مجھے اکثرسمجھاتے، غصے نہ کرنے کا ذہن بناتے اور لوگوں سے اچھا برتاؤ کرنے، بہن بھائیوں کے ساتھ پیار محبت سے پیش آنے، لڑائی جھگڑوں سے دور رہنے اور خلاف ِمزاج بات پر خون خرابہ کرنے کے بجائے صبر کرنے کا درس دیتے مگر میں ان کی ایک نہ سنتا. اسی دوران اللہ عَزَّوَجَلَّ کا مجھ پر کرم ہو گیا اور مجھے اس وحشیانہ زندگی سے نجات مل گئی، سبب کچھ یوں بنا کہ میرے بڑے بھائی کو دعوتِ اسلامی کا مشکبار مدنی ماحول میسر تھا، وہ بھی میری ان نازیبا حرکتوں سے بہت تنگ تھے، بارہا مجھے سمجھا بھی چکے تھے، ایک دن والدہ نے مجھ سے فرمایا کہ بیٹا اپنے بڑے بھائی کو بلا کر لائو. میں انہیں تلاش کرتا ہوا ایک مسجد میں داخل ہوگیا، وہاں میں نے دیکھا کہ عاشقانِ رسول ﷺ کا مدنی قافلہ موجود ہے اور علمِ دین کا حلقہ لگا ہوا ہے، ایک اسلامی بھائی بڑے پیارے انداز میں درس دے رہے ہیں اور دیگر عاشقانِ رسول ﷺ بڑی توجہ کے ساتھ سن رہے ہیں. انہی اسلامی بھائیوں میں بڑے بھائی جان بھی درس سننے میں محو تھے، یہ دیکھ کر میں گھر لوٹ آیآ اور والدہ سے عرض کی کہ بھائی جان مسجد میں موجود ہیں. اتفاق سے اگلے دن پھر والدہ نے حکم دیا کہ بڑے بھائی کو بلا کر لائو چنانچہ میں انہیں تلاش کرتا ہوا ایک بار پھر مسجد کے دروازے پر پہنچ گیا اس بار بھائی جان نے مجھے دیکھ لیا. موقع غنیمت جانتے ہوئے انہوں نے مدنی قافلے کے شرکاء اسلامی بھائیوں کو میرے بارے میں بتایا کہ یہ میرے چھوٹے بھائی ہیں جو بہت غصیلے اور جھگڑالو طبیعت کے ہیں، یہی وجہ ہے کہ آئے دن کسی نہ کسی کی شامت ضرور آتی ہے، میں نے اور گھر والوں نے اسے بارہا سمجھایا ہے مگر یہ ہماری ایک نہیں سنتا، آپ انہیں نیکی کی دعوت پیش کیجیے، کیا بعید آپ کا سمجھانا کار گر ثابت ہو اور یہ سدھر جائیں اور دعوتِ اسلامی کے مدنی ماحول سے وابستہ ہوکر اچھے اخلاق سے مالامال ہوجائیں. چند اسلامی بھائی نیکی کی دعوت دینے کی غرض سے میرے قریب تشریف لائے، انہوں نے پاس آتے ہی بڑے ہی میٹھے لہجے میں مجھے سلام کیا اور انفرادی کوشش کرتے ہوئے احسن انداز میں مجھے نرم رویہ اپنانے کا ذہن دیا مزید ایذائے مسلم کے سبب قبر و آخرت میں ملنے والے عذابات سے بھی آگاہ کیا. جسے سن کر میں بے حد متأثرہوا اور سوچنے لگا یہ بھی تو میری طرح انسان ہیں مگر ان کا اندازِ گفتگو کتنا میٹھا اور شاندار ہے اور ایک میں ہوں کہ بداخلاقی کی نحوست میں گرفتار ہوں. پھر میں کچھ دیر ان کے قرب کی برکتیں پاتارہا، جب جانے کی اجازت طلب کی تو انہوں نے مجھے ایک کیسٹ بیان بنام ’’بے پردگی کی تباہ کاریاں‘‘ تحفۃً دیا اور اسے سننے کی ترغیب دلائی. میں یہ کیسٹ بیان گھر لے آیا. جب سنا تو میری زندگی میں مدنی انقلاب برپا ہوگیا، دل میں گناہوں سے نفرت محسوس کرنے لگا مزید مجھ پر مدنی قافلے والوں کی پیار بھری باتوں کا ایسا اثر ہوا کہ اگلے روز خود ہی ان سے ملنے مسجد پہنچ گیا اور شرکائے مدَنی قافلہ کی صحبت کی برکتیں سمیٹنے میں مشغول ہوگیا اس بار بھی عاشقانِ رسول ﷺ کی طرف سے ملنے والی خصوصی شفقتوں نے میرا دِل باغ باغ کر دیا. شرکائے مدنی قافلہ نے ایک رسالہ مجھے تحفے میں پیش کیا جسے میں گھر لے آیا. چنانچہ جب پڑھنا شروع کیا تو اس میں خاندانِ رسول ﷺ کی عظیم قربانیوں اور یزیدوں کی جفاکاریوں کے بارے میں پڑھ کر میرا سخت دِل نرم پڑگیا، مجھے معلوم ہوگیا کہ ظلم و ستم کرنا اور خون کی ندیاں بہانا دشمنانِ اسلام کا وتیرہ ہے جبکہ مصیبتوں اور پریشانیوں میں بھی صبر کرنا سچے مسلمانوں کا طریقہ ہے، کربلا کے ہوش رُبا منظر نے میرے غفلت کے پردے چاک کردیے اور مجھے اپنی بے باکیوں اور ظلم و زیادتیوں کا احساس ہونے لگا چنانچہ میں نےاللہ عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں سچی توبہ کی اور اپنے کردار کو سَنوارنے، بداخلاقی سے نجات پانے اور علمِ دین سے روشن و منور ہونے کے لیے مدنی ماحول سے وابستہ ہونے کا ارادہ کرلیا، عاشقانِ رسول ﷺ کی صحبت میں بیٹھنے لگا اور سنّتوں بھرے اجتماعات میں جانے لگا. دعوت اسلامی کا سنّتوں بھرا مدنی ماحول کیا مُیَسَّر آیا میری ظلمتِ عصیاں میں ڈوبی زندگی میں نیکیوں کا اجالا ہونے لگا، عاداتِ بد کافور ہونے لگیں اور بد مزاجی کا تعفن دور ہونے لگا. خوش قسمتی سے اسی دوران دعوتِ اسلامی کے تحت ہونے والے بین الاقوامی سنّتوں بھرے اجتماع کی دعوت کا سلسلہ شروع ہوگیا، عاشقانِ رسول ﷺ بڑھ چڑھ کر اس کی تشہیر میں اپنا کردار ادا کرنے لگے، مجھ پر بھی کرم ہوگیا اور میں اسلامی بھائیوں کی شفقتوں کی بدولت ان کے ہمراہ جانے کے لیے آمادہ ہوگیا. مقررہ تاریخ آنے پر علاقے سے ہمارا مدنی قافلہ سنّتوں بھرے اجتماع کی برکتیں سمیٹنے کے لیے روانہ ہوگیا، جب ہم اجتماع گاہ پہنچے تو وہاں کے روح پرور مناظر دیکھ کر میں حیران رہ گیا، مسلمانوں کا ٹھاٹے مارتا سمندر تھا، ہرطرف سنّتوں کی بہاریں تھیں، کثیر عاشقانِ رسول ﷺ کے سروں پر عمامے شریف کے تاج سجے تھے تو بدن مدَنی لباس سے مُزین تھے اور چہرے داڑھی شریف سے روشن تھے. مزید وہاں ہونے والے پُرسوز بیانات اور دل میں عشقِ رسول ﷺ کی شَمْع فروزاں کرنے والی نعتیں سن کر میری سوچ و فکر کا محور ہی بدل گیا، کرم بالائے کرم اسلامی بھائیوں کی انفرادی کوشش کی برکت سے سلسلہ عالیہ قادریہ رضویہ عطاریہ میں بھی داخل ہوگیا. میرے مرید ہونے پر ایک جاننے والا کہنے لگا آپ تو بن دیکھے اور بغیر ہاتھ تھامے مرید ہوگئے میں نے کہا اگر مرشد کامل ہوگا تو زیارت بھی کرادے گا اور فیضان سے بھی مالا مال فرمائے گا یہ سن کر وہ خاموش ہو گئے اسی سنّتوں بھرے اجتماع کی ایک رات سویا تو قسمت جاگ اُٹھی، سر کی آنکھیں کیا بند ہوئیں دل کی آنکھیں کھل گئیں، کیا دیکھتا ہوں کہ میری نظروں کے سامنے، امیرِاہلسنّت، بانیِ دعوتِ اسلامی حضرت علامہ مولانا ابو بلال محمد الیاس عطار قادری رضوی ضیائی دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ جَلْوہ افروز ہیں اور میں آپ کے جلووں میں گم ہوں، آپ فرما رہے ہیں اب تو زیارت ہوگئی. آپ نے مزید شفقت فرمائی اور مجھے تھپکی دیتے ہوئے مسکرانے لگے. صبح جب بیدار ہوا تو میں بہت خوش تھا، خواب کا سہانا منظر آنکھوں میں گھوم رہاتھا، اس خواب کے بعد میرے دل میں دعوتِ ِاسلامی کی محبت مزید موجزن ہوگئی اور نیکی کا ایسا جذبہ دل میں پیدا ہوا کہ میں ہاتھوں ہاتھ عاشقانِ رسول ﷺ کے ساتھ ٣٠ دن کے مدنی قافلے کا مسافر بن گیا، راہِ خدا کی برکتوں کے کیا کہنے! اَلْحَمْدُ لِلّٰہ عَزَّوَجَلَّ اس دورانِ عِلم و عمل کی خوشبوؤں سے میرا ظاہر و باطن مہک اُٹھا، عِلمی حَلْقوں میں سنّتیں، دعائیں اور شَرْعی مسائل سیکھنے کے علاوہ پنج وقتہ نمازیں صف ِاوّل میں پڑھنے کی سعادت بھی ملی، سنّتوں کے عامل اسلامی بھائیوں کی رَفاقت نے دل میں سنّتوں سے مزین ہونے کا جذبہ بیدار کردیا، یوں جلد ہی میں نے سبز سبز عِمامے سے اپنا سر سر سبز و شاداب کرلیا، داڑھی منڈانے کے فعلِ حرام سے توبہ کی اور چہرہ سنّتِ رسول ﷺ سے آراستہ کرلیا، سنّت کے مطابق سفید کُرتہ میرے لباس کا حصہ بن گیا اور نیکی کی دعوت دینا میرا معمول بن گیا. مدنی ماحول میں آنے سے قبل کسی کو خاطر میں نہ لاتا تھا مگر اب ہر ایک سے پیار و اخلاق سے پیش آنے، والدین کا ادب واحترم کرنے اور چھوٹے بہن بھائیوں پر شفقت کرنے والا بن گیا ہوں اور اپنا صرف یہ عظیم مقصد بنالیا ہے کہ ’’مجھے اپنی اور ساری دنیا کے لوگوں کی اصلاح کی کوشش کرنی ہے‘‘. اَلْحَمْدُ لِلّٰہ عَزَّوَجَل َّتادم ِ بیان رکن کابینہ ہونے کی حیثیت سے سنّتوں کا پیغام عام کرنے کے لیے کوشاں ہوں.
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! دعوتِ اسلامی سے منسلک ہونے کے بعد انشآء اللہ عَزَّوَجَلَّ مدنی ماحول کی بَرَکت سے اعلیٰ اَخلاقی اوصاف غیر محسوس طور پر آپ کے کردار کا حصہ بنتے چلے جائیں گے. شیخِ طریقت، امیرِ اہلسنّت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ اپنی مایہ ناز تالیف ’’فیضانِ سنّت‘‘ کے صفحہ ١١٤٣ پر تحریر فرماتے ہیں: میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! ہمیں آپس میں لڑائی جھگڑا کرنے کے بجائے ایک دوسرے کی ہمدردی اور غمگُساری کرنی چائیے. مُسلمان ایک دوسرے کو مارنے، کاٹنے اور لُوٹنے، ایک دوسرے کی دُکانیں اور اَسباب جَلانے والا نہیں ہوتا.

       مسلمان، مومن اور مہاجر کی تعریف

سَیِّدُنا فُضالہ بن عُبَید رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ سے روایت ہے کہ تاجدارِ رسالت، شَہَنْشاہِ نُبُوَّت، پیکرِ جُود و سخاوت، سراپا رَحمت، محبوبِ رَبُّ الْعِزَّت َ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے حجۃ الْوَداع کے موقع پر ارشاد فرمایا:
کیا تمہیں مومن کے بارے میں خبر نہ دوں؟ پھر ارشاد فرمایا: مومن وہ ہے جس سے دوسرے مسلمان اپنی جان اور اپنے اموال سے بے خوف ہوں اور مسلمان وہ ہے جس کی زَبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں اور مجاہِد وہ ہے جس نے اطاعتِ خداوندی عَزَّوَجَلَّ کے معاملے میں اپنے نَفس کے ساتھ جِہاد کیا اور مہاجِر وہ ہے جس نے خطا اور گناہوں سے علیحدگی اختیار کی.
(مستدرک، کتاب الایمان، تعریف اکمل المؤمنین، ۱/۱۵۸، حدیث:۲۴) 
اور ارشاد فرمایا:
کسی مسلمان کے لئے جائز نہیں کہ وہ کسی دوسرے مسلمان کی طرف (یا اُس کے بارے میں ) اِس قِسم کے اشارے، کنائے سے کام لے جو اُس کی دِل آزاری کا باعِث بنے اور یہ بھی حَلال نہیں کہ کوئی ایسی حرکت کی جائے جو کسی مسلمان کو ہراساں یا خوفزدہ کردے.
(اتحاف السادۃ المتقین، کتاب آداب الألفۃ والأخوۃ والصحبۃ ۷/۱۷۷).

    طریقِ مصطَفٰے کو چھوڑنا  ہے  وجہ ِ بربادی
    اِسی سے قوم دنیا میں ہوئی بے اقتدار اپنی

حضرتِ سَیِّدُنا مُجاہِد رَحمۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ بعض دوزخیوں کو ایسی خارِش میں مبتلا کردے گا کہ کھجاتے کھجاتے اُن کی کھال اُدھڑ جائے گی یہاں تک کہ اُن کی ہڈّیاں ظاہر ہو جائیں گی. پھر نِدا (آواز) سنائی دے گی کہ کہو، کیسی رہی یہ تکلیف؟ وہ کہیں گے کہ انتہائی سخت اور ناقابلِ برداشت ہے. تب انہیں بتایا جائے گا کہ ’’دُنیا میں جو تم مسلمانوں کو سَتایا کرتے تھے یہ اُس کی سزا ہے‘‘. 
(اتحاف السادۃ المتقین، کتاب آداب الألفۃ والأخوۃ والصحبۃ، ۷/۱۷۵).

طالب دعا : حافظ محمد احسان بشیر، فرسٹ ایئر ایم بی بی ایس، نشتر میڈیکل کالج، ملتان، پنجاب، پاکستان.

No comments:

Post a Comment