Thursday, 15 October 2015

بیٹیوں کے فضائل اور عظیم بہادر خاتون

انتساب: سیدہ فاطمہ الزہراء رضی اللہ تعالٰی عنہا اور شہدائے کربلا رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کے نام

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ علٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ ط اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ ط  بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّ حِیْم ط

شیطٰن لاکھ سُستی دلائے یہ آرٹیکل اوّل تا آخِر پڑھ لیجئے اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّوَجَلَّ آپ کا ایمان تازہ ہو جائے گا.
                دُرُودُ شریف کی فضیلت

فرمان مصطفیٰ صل اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم والہ وسلم هے:
             " جس نے قرآن پاک پڑھا، رب تعالیٰ کی حمد کی اور نبی (صل اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم) پر درود شریف پڑها نیز اپنے ربّ سے مغفِرت طلب کی تو اس نے بهلائی اس کی جگہ سے تلاش کر لی".
               (شعب الایمان ج ٢ ص ٣٧٣ حدیث ٢٠٨٤)

  صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب !    صلَّی اللہُ تعالٰی علٰی محمَّد

     اللہ چاہے تو بیٹا دے یا بیٹی یا کچھ نہ دے

اَلْحَمْدُ لِلّٰہ عَزَّوَجَلَّ اسلام نے بیٹی کو عَظَمت بخشی اور اس کا وقار بُلند کیا ہے، مسلمان اَللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کا عاجز بندہ اور اس کے احکام کا پابند ہوتا ہے، بیٹا ملے یا بیٹی یا بے اولاد رہے ہر حال میں اِسے راضی بَرِضا رہنا چاہئے. پارہ ٢٥ سُوْرَۃُ الشُّوْرٰی کی آیت: ٤٩ اور ٥٠ میں ارشاد ہوتا ہے:

لِلہِ مُلْکُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ ؕ یَخْلُقُ مَا یَشَآءُ ؕیَہَبُ لِمَنْ یَّشَآءُ اِنَاثًا وَّ یَہَبُ لِمَنۡ یَّشَآءُ الذُّکُوۡرَ ﴿ۙ۴۹﴾ اَوْ یُزَوِّجُہُمْ ذُکْرَانًا وَّ اِنَاثًا ۚ وَ یَجْعَلُ مَنۡ یَّشَآءُ عَقِیۡمًا ؕ اِنَّہٗ عَلِیۡمٌ قَدِیۡرٌ ﴿۵۰﴾

ترجَمۂٔ کنزالایمان:
              "اَللّٰہ ہی کے لئے ہے آسمانوں اور زمین کی سلطنت، پیدا کرتا ہے جو چاہے، جسے چاہے بیٹیاں عطا فرمائے اور جسے چاہے بیٹے دے یا دونوں ملا دے بیٹے اور بیٹیاں اور جسے چاہے بانجھ کردے، بیشک وہ علم و قدرت والا ہے".

’’خاتونِ جنّت‘‘ کے آٹھ حُرُوف کی نسبت سے بیٹیوں  کے فضائل پر مَبنی ٨ فرامینِ مصطَفٰے صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم:

{١} بیٹیوں کو بُرا مت سمجھو، بے شک وہ مَحَبَّت کرنے والیاں ہیں.
        ( مُسندِ اِمام احمد بن حنبل ج ۶ ص ۱۳۴ حدیث  ۱۷۳۷۸) 
{٢} جس کے یہاں بیٹی پیدا ہو اور وہ اُسے اِیذا نہ دے اور نہ ہی بُرا جانے اور نہ بیٹے کو بیٹی پر فضیلت دے تو اَللّٰہ عَزَّوَجَلَّ اُس شخص کو جنت میں داخِل فرمائے گا.
                ( المستدرک ج ۵ ص ۲۴۸ حدیث: ۷۴۲۸)
{٣} جس شخص پر بیٹیوں کی پرورش کا بوجھ آ پڑے اور وہ ان کے ساتھ حُسنِ سلوک (یعنی اچّھا برتاؤ ) کرے تو یہ بیٹیاں اس کے لئے جہنَّم سے روک بن جائیں گی.
                         ( مسلم ص ۱۴۱۴ حدیث ٢٦۲۹) 
{٤} جب کسی کے ہاں لڑکی پیدا ہوتی ہے تو اَللّٰہ عَزَّوَجَلَّ فِرِشتوں کو بھیجتا ہے جو آکر کہتے ہیں:
                  ’’ اَلسّلَامُ عَلَیْکُم اَہْلَ الْبَیْت یعنی اے گھر والو! تم پر سلامَتی ہو‘‘
پھر فِرِشتے اُس بچّی کو اپنے پروں کے سائے میں لے لیتے ہیں اور اُس کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ ایک کمزور جان ہے جو ایک ناتُواں (یعنی کمزور) سے پیدا ہوئی ہے، جو شخص اِس ناتواں جان کی پرورِش کی ذمّے داری لے گا، قِیامت تک اللہ کی مدد اُس کے شاملِ حال رہے گی.
           ( مجمع الزوائد ج ۸ ص ۲۸۵ حدیث ۱۳۴۸۴)
{٥} جس کی تین بیٹیاں ہوں ، وہ ان کے ساتھ اچھا سلوک کرے تو اُس کے لئے جنت واجِب ہوجاتی ہے. عرض کی گئی: اور دو ہوں تو؟ فرمایا: اور دو ہوں تب بھی. عرض کی گئی: اگر ایک ہو تو ؟ فرمایا:  اگر ایک ہو تو بھی.
    ( معجم الاوسط ج ۴ ص ۳۴۷ حدیث ٦۱۹٩ مُلَخّصاً)
{٦} جس کی تین بیٹیاں یا تین بہنیں ہوں یا دو بیٹیاں یا دو بہنیں ہوں پھر وہ اُن کی اچھی طرح پرورش کرے اور ان کے مُعامَلے میں اللہ سے ڈرتا رہے تو اُس کیلئے جنت ہے. 
                     ( ترمذی ج ۳ ص ۳٦۷ حدیث ۱۹۲۳)
{٧} جس کی تین بیٹیاں یا تین بہنیں ہوں اور وہ ان کے ساتھ اچھا سُلوک کرے تو وہ جنت میں داخل ہوگا.
                     ( ترمذی ج ۳ ص ۳٦٦ حدیث ۱۹۱۹)
{٨} جس نے اپنی دو بیٹیوں یا دوبہنوں یا دو رشتے دا ر بچیوں پر ثواب کی نیّت سے خرچ کیا یہاں تک کہ اللہ انہیں بے نیاز کر دے (یعنی ان کا نِکاح ہو جائے یا وہ صاحِب مال ہوجائیں یا ان کی وفات ہو جائے) تو وہ اس کیلئے آگ سے آڑ ہو جائیں گی. 
                (مسند امام احمد بن حنبل ج ۱۰ ص ۱۷۹ حدیث ۲٦۵۷۸)

  صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب !     صلَّی اللہُ تعالٰی علٰی محمَّد

                       عظیم بہادر خاتون


حضرت صفیہ بنت عبد المطلب رضی اللہ تعالٰی عنہ حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ تعالٰی عنہ کی والدہ، حضرت اسماء بنت ابی بکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہا کی ساس، خلیفہ اول عاشق اکبر یار غار حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ کی سمدھن، حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی دادی، حضرت علی المرتضٰی شیر خدا کرم اللہ تعالٰی وجہہ الکریم کی پھوپھی، اسلام کے عظیم شہید حضرت حمزہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کی حقیقی بہن، حضرت محمد مصطفیٰﷺ کی والد محترم کے رشتے سے پھوپھی اور والدہ محترمہ کے دور کے  رشتے سے خالہ زاد بہن تھیں. غزوہ احزاب میں آپ کی کمال اور عظیم بہادری کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے پیارے نبی صل اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے آپ کو مال غنیمت میں سے حصہ بھی عطا فرمایا تھا. کیونکہ اسلام میں آپ پہلی عورت تھیں جنہوں نے ایک یہودی کو واصل جہنم کیا تها اور اس کا سر تن سے جدا کر دیا تھا. آپ کے بیٹے حضرت زبیر رضی اللہ تعالٰی عنہ عشرہ مبشرہ میں شامل ہیں. اسلام کی اس عظیم بہادر عورت نے عہد فاروقی میں وفات پائی. بوقت وفات آپ کی عمر شریف ٧٣ برس تھی. آپ کی قبر انور جنت البقیع میں ہے. 

 اللہ کی ان پر رحمت ہو اور ان کے صدقے ہماری بے حساب مغفِرت ہو. آمین بجاه النبی الامین صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم.   

طالب دعا : حافظ محمد احسان بشیر، فرسٹ ایئر ایم بی بی ایس، نشتر میڈیکل کالج، ملتان، پنجاب، پاکستان.

No comments:

Post a Comment