بیاد : مجدد دین و ملت، ثانی ابو حنیفہ، حامی سنت، ماحی بدعت، مجدد اعظم، امام اھلسنت، اعلیٰحضرت الشاہ امام احمد رضا خان فاضل بریلوی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ.
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ علٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ ط اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ ط بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّ حِیْم ط
شیطٰن لاکھ سُستی دلائے یہ آرٹیکل اوّل تا آخِر پڑھ لیجئے اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّوَجَلَّ آپ کا ایمان تازہ ہوجائے گا.
دُرُود شریف کی فضیلت
نبیوں کے سُلطان، رَحمتِ عالمیان، سردارِ دوجہان صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا فرمانِ بَرَکت نشان ہے:
’’جس نے مجھ پر روزِ جُمُعہ دو سو ۲۰۰ بار دُرُودِ پاک پڑھا اُس کے ۲۰۰ سال کے گناہ مُعاف ہوں گے‘‘ (جَمْعُ الْجَوامِع لِلسُّیُوطی).
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیْب ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
تیری اٹکے تو وکیلوں سے کرے استمداد
یا رسول اللہ کہنے سے بگڑتی ہے طبیعت تیری
اللہ کے سوا کسی اور سے مدد مانگنا
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! کچھ لوگوں کے ذِہن میں یہ وَسوَسہ ہوسکتا ہے کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے سوا کسی سے مدد مانگنی ہی نہیں چاہیے کیونکہ جب اللہ عَزَّوَجَلَّ مدد کرنے پر قادِر ہے تو پھر غوثِ پاک یا کسی اوربُزُرگ سے مدد مانگیں ہی کیوں؟ جواباً عرض ہے کہ یہ شیطان کا خطرناک ترین وار ہے اور اس طرح وہ نہ جانے کتنے لوگوں کو گمراہ کردیتا ہے. حالانکہ اللہ عَزَّوَجَلَّ نے کسی غیر سے مدد مانگنے سے منع ہی نہیں فرمایا، بلکہ قراٰنِ کریم میں جگہ بہ جگہ اللہ عَزَّوَجَلَّ نے دوسروں سے مدد مانگنے کی اجازت مَرحمت فرمائی ہے، ہر ہر طرح سے قادرِ مُطلَق ہونے کے باوُجود بذاتِ خود اپنے بندوں سے دینِ حق کی مدد کیلئے ترغیب ارشاد فرمائی ہے. چُنانچِہ پارہ ٢٦ سورۂ مُحَمَّد کی آیت نمبر ٧ میں ارشاد ہوتاہے:
اِنۡ تَنۡصُرُوا اللہَ یَنۡصُرْکُمْ
ترجَمۂ کنزالایمان: "اگر تم دینِ خدا (عَزَّوَجَلَّ)کی مدد کروگےاللہ(عَزَّوَجَلَّ) تمہاری مدد کرے گا".
حضرت عیسیٰ نے دوسروں سے مدد مانگی
حضرتِ سیِّدُنا عیسیٰ روحُ اللہ عَلٰی نَبِیِّنا وَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام نے اپنے حواریوں سے مدد طلب فرمائی، چُنانچِہ پارہ ٢٨ سُوْرَۃُ الصّف کی چودھویں آیتِ کریمہ میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
قَالَ عِیۡسَی ابْنُ مَرْیَمَ لِلْحَوَارِیّٖنَ مَنْ اَنۡصَارِیۡۤ اِلَی اللہِ ؕ قَالَ الْحَوَارِیُّوۡنَ نَحْنُ اَنۡصَارُ اللہِ
ترجَمۂ کنزالایمان: "عیسیٰ (علیہ السلام) بن مریم (رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا) نے حواریوں سے کہا تھا کون ہیں جو اللہ ( عَزَّ وَجَلَّ) کی طرف ہوکر میری مدد کریں؟ حواری بولے ہم دینِ خدا (عَزَّ وَجَلَّ) کے مدد گار ہیں".
حضرتِ موسیٰ نے بندوں کا سہارا مانگا
حضرتِ سیِّدُنا موسیٰ کلیمُ اللہ عَلٰی نَبِیِّنا وَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام کو جب تبلیغ کے لیے فرعون کے پاس جانے کا حکم ہوا تو انہوں نے بندے کی مدد حاصل کرنے کے لیے بارگاہِ خداوندی عَزَّوَجَلَّ میں عرض کی:
وَاجْعَلۡ لِّیۡ وَزِیۡرًا مِّنْ اَہۡلِیۡ ﴿ۙ۲۹﴾ ہٰرُوۡنَ اَخِی ﴿ۙ۳۰﴾ اشْدُدْ بِہٖۤ اَزْرِیۡ ﴿ۙ۳۱﴾ (پ ۱٦، طٰہٰ: ۲۹،۳۱)
ترجَمۂ کنزالایمان: "اور میرے لئے میرے گھر والوں میں سے ایک وزیر کردے. وہ کون، میرا بھائی ہارون (علیہ السلام) اس سے میر ی کمر مضبوط کر".
نیک بندے بھی مددگا ر ہیں
پارہ ٢٨ سُوْرَۃُ التَّحْرِیْم کی چوتھی آیت ِ مبارکہ میں ارشاد باری عَزَّوَجَلَّ ہے:
فَاِنَّ اللہَ ہُوَ مَوْلٰىٰہُ وَ جِبْرِیۡلُ وَ صٰلِحُ الْمُؤْمِنِیۡنَ ۚ وَ الْمَلٰٓئِکَۃُ بَعْدَ ذٰلِکَ ظَہِیۡرٌ﴿۴﴾
ترجَمۂ کنزالایمان: "تو بے شک اللہ( عَزَّ وَجَلَّ)ان کا مددگار ہے اور جبریل (علیہ السلام) اور نیک ایمان والے اوراس کے بعد فرشتے مدد پر ہیں".
انصار کے معنیٰ مددگار
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! دیکھا آپ نے! قراٰنِ پاک بالکل صاف صاف لفظوں میں بہ بانگِ دُہُل یہ اعلان کر رہا ہے کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ تو مددگار ہے ہی مگر باِذنِ پروَردَگار عَزَّوَجَل َّساتھ ہی ساتھ جبریلِ امین عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ والسَّلَام اور اللہ عَزَّوَجَلَّ کے مقبول بندے (انبیائے کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ والسَّلَام اور اولیائے عُظام رَحِمَہُمُ اللہُ تَعَالٰی) اور فرشتے بھی مددگار ہیں. اب تو اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّوَجَلََّّ یہ وَسوَسہ جڑ سے کٹ جائے گا کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے سوا کوئی مدد کر ہی نہیں سکتا. مزے کی بات تو یہ ہے کہ جو مسلمان مَکّۂ مکرَّمہ سے ہجرت کر کےمدینۂ منوَّرہ پہنچے وہ مُہاجر کہلائے اوران کے مددگار انصار کہلائے اور یہ ہر سمجھ دار جانتاہے کہ ’’انصار‘‘ کے لُغوی معنی ’’مددگار‘‘ ہیں.
؎ اللہ کرے دل میں اُتر جائے مِری بات
اہل اللہ زندہ ہیں
اب شاید شیطان دل میں یہ "وسوسہ‘‘ ڈالے کہ زندوں سے مدد مانگنا تو دُرُست ہے مگر بعدِ وفات مدد نہیں مانگنی چاہیے. آیتِ ذَیل اور اس کے بعد والے مضمون پر غور فرمالیں گے تو اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّوَجَلَّ اِس وَسوَسے کی جڑ بھی کٹ جائے گی. چُنانچِہ پارہ ٢ سُوْرَۃُ الْبَقْرَہ آیت ١٥٤ میں ارشاد ہوتاہے :
وَلَا تَقُوۡلُوۡا لِمَنْ یُّقْتَلُ فِیۡ سَبِیۡلِ اللہِ اَمْوٰتٌ ؕ بَلْ اَحْیَآءٌ وَّلٰکِنۡ لَّا تَشْعُرُوۡنَ﴿۱۵۴﴾
ترجَمۂ کنزالایمان: "اورجوخدا (عزوجل) کی راہ میں مارے جائیں انہیں مردہ نہ کہو بلکہ وہ زندہ ہیں ہاں تمہیں خبر نہیں".
انبیاء حیات ہیں
جب شُہَداء کی زندگی کا یہ حال ہے تو اَنبیاء کِرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ والسَّلَام جوکہ شہیدوں سے مرتبہ وشان میں باِلْاِتِّفاق اعلیٰ اور برتر ہیں ان کے حیات (یعنی زندہ) ہونے میں کیوں کر شُبہ کیا جاسکتا ہے. حضرتِ سیِّدُنا امام بیہقی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہ ِالْقَوِی نے حیاتِ اَنبیاء کے بارے میں ایک رِسالہ لکھا ہے اور ’’دلائلُ النُّبَّوۃ ‘‘ میں فرماتے ہیں کہ اَنبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ والسَّلَام شُہَداء کی طرح اپنے ربّ عَزَّوَجَلَّ کے پاس زِندہ ہیں.
(اَلْحاوی لِلفتاوی لِلسُّیوطی ج٢ ص٦٣ ،دَلَائِلُ النُّبُوَّۃِ لِلْبَیْہَقِی ج٢ ص٣٨٨ دارالکتب العلمیۃ بيروت).
اولیاء حیات ہیں
حضرتِ شاہ ولیُّ اللہ مُحَدِّثِ دِہلوی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہ ِالْقَوِی ’’ہَمعات‘‘ کے ہَمعہ نمبر ١١ میں گیارہویں والے غوثِ پاک رَحمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی شانِ عَظَمت نشان بیان کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں:
حضرتِ مُحیُ الدّین عبدُالقادِرجِیلانیرَحمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ اَنْدْ وَلِہٰذا گُفْتَہ اَنْدْکِہ اِیْشاں دَرْ قَبْرِ خُوْدْ مِثْلِ اَحْیاء تَصَرُّف مِیْ کُنَنْد ۔
ترجمہ: وہ شیخ محیُ الدّین عبدُالقادِر جیلانی قُدِّسَ سِرُّہُ الرَّبَّانِی ہیں، لہٰذا کہتے ہیں کہ آپ رَحمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ اپنی قبر شریف میں زِندوں کی طرح تصرُّف کرتے ہیں (یعنی زندوں ہی کی طرح بااختیار ہیں).
(ہَمعات ص ٦١ اکادیمیۃ الشاہ ولی اللہ الدھلوی بابُ الاسلام حیدر آباد).
بہرحال اَنبیاء کِرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ والسَّلَام اور اولیاءِ عُظام رَحِمَہُمُ اللہُ تَعَالٰی حیات (یعنی زندہ) ہوتے ہیں اور ہم مُردوں سے نہیں بلکہ زندوں سے مدد مانگتے ہیں اور اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی عطا سے انہیں حاجت روا اورمشکِل کُشا مانتے ہیں. ہاں اللہ عَزَّوَجَل کی عطا کے بِغیر کوئی نبی یا ولی ایک ذرّہ بھی نہیں دے سکتا نہ ہی کسی کی مدد کرسکتاہے.
امام اعظم نے سرکار سے مدد مانگی
کروڑوں حنفیوں کے پیشوا حضرتِ سیِّدُنا امامِ اعظم ابو حنیفہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ بارگاہ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ میں مدد کی درخواست کرتے ہوئے ’’قصیدۂ نُعمان‘‘ میں عرض کرتے ہیں:
یَا اَکْرَمَ الثَّقَلَیْنِ یَا کَنْزَ الْوَرٰی
جُدْ لِیْ بِجُوْدِکَ وَاَرْضِنِیْ بِرِضَاکَ
اَنَا طَامِعٌ بِالْجُوْد ِ مِنْک َ لَمْ یَکُنْ
لِاَبِیْ حَنِیْفَۃَ فِی الْاَنَام ِ سِوَاکَ
یعنی اے جنّ و انس سے بہتر اور نعمت الٰہی عَزَّوَجَلَّ کے خزانے! اللہ عَزَّوَجَلَّ نے جو آپ کو عنایت فرمایا ہے اُس میں سے مجھے بھی عطا فرمائیے اور اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے آپ کو جو راضی کیا ہے آپ مجھے بھی راضی فرمائیے. میں آپ کی سخاوت کا امیدوار ہوں، آپ کے سوا ابوحنیفہؔ کا مخلوق میں کوئی نہیں.
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیْب ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
امام بوصیری نے مدد مانگی
حضرتِ سیِّدُنا امام شَرَفُ الدین بُوصیری رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ اپنے شُہرۂ آفاق قصیدہ بردہ شریف میں سرکارِ مدینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم َسے مدد کی درخواست کرتے ہوئے عرض کرتے ہیں:
؎ یَااَکْرَمَ الْخَلْقِ مَا لِیْ مَنْ اَلُوذُ بِہٖ
سِوَاکَ عِنْدَ حُلُوْلِ الْحَادِثِ الْعَمَمٖ
یعنی اے تمام مخلوق سے بہتر، میرا آپکے سوا کوئی نہیں جس کی میں پناہ لوں مصیبت کے وقت.
(قصیدہ بُردہ ص ٣٦).
امدادُ اللہ مہاجِر مکی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ ِاپنے دِیوان ’’نالۂ امداد‘‘ میں عرض گزار ہیں :
؎ لگا تکیہ گناہوں کا پڑا دن رات سوتا ہوں
مجھے اب خوابِ غفلت سے جگا دو یارسول اللہ
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّدَ
طالب دعا : حافظ محمد احسان بشیر، فرسٹ ایئر ایم بی بی ایس، نشتر میڈیکل کالج، ملتان، پنجاب، پاکستان.
No comments:
Post a Comment