Tuesday, 25 August 2015

حیرت انگیز حادثہ

بیاد : مجدد دین و ملت، ثانی ابو حنیفہ، حامی سنت، ماحی بدعت، مجدد اعظم، امام اھلسنت، اعلیٰحضرت الشاہ امام احمد رضا خان فاضل بریلوی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ.
انتساب : تمام علمائے اسلام ( علمائے حق ) کے نام.

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ علٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ ط اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ ط  بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّ حِیْم ط

شیطٰن لاکھ سُستی دلائے یہ آرٹیکل اوّل تا آخِر پڑھ لیجئے اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّوَجَلَّ آپ کا ایمان تازہ ہوجائے گا.

                 دُرُود شریف کی فضیلت

نبیوں کے سُلطان، رَحمتِ عالمیان، سردارِ دوجہان صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  کا فرمانِ بَرَکت نشان ہے:
’’جس نے مجھ پر روزِ جُمُعہ دو سو ۲۰۰ بار دُرُودِ پاک پڑھا اُس کے ۲۰۰  سال کے گناہ مُعاف ہوں  گے‘‘ (جَمْعُ الْجَوامِع لِلسُّیُوطی).

صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیْب !        صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

                   حیرت انگیز حادثہ

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! بروز اتوار ۲۶ ربیعُ النُّور شریف ۱۴۲۰ھ بمطابِق 11/7/1999 بوقت دوپہر پنجاب کے مشہور شہر لالہ موسیٰ کی ایک مَصروف شاہراہ پرکسی ٹرالر نے دعوتِ اسلامی کے ایک ذمّہ دار،مُبلِّغ دعوتِ اسلامی محمد مُنیر حسین عطاّری علیہ رَحْمَۃُاللہِ الْباری (مَحَلّہ ساکِن اسلام پورہ لالہ موسیٰ) کو بُری طرح کُچل دیا. یہاں تک کہ ان کے پیٹ کی جانب سے اُوپر اور نیچے کا حصّہ الگ الگ ہوگیا. مگر حیرت کی بات یہ تھی کہ پھر بھی وہ زندہ تھے، اور حیرت بالائے حیرت یہ کہ حَواس اتنے بحال تھے کہ بُلند آواز سے الصَّلٰوۃُ وَالسَّلامُ عَلَیْکَ یا رَسُوْلَ اللہ اور لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہ (صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ) پڑھے جا رہے تھے. لالہ موسیٰ کے اَسپتال میں ڈاکٹروں کے جواب دے دینے پر انہیں شہر گجرات کے عزیز بھٹّی اَسپتال لے جایا گیا. انہیں اَسپتال لے جانے والے اسلامی بھائی کا بَقَسم بیان ہے، اَلْحمدُ لِلّٰہ عَزَّوَجَلَّ محمد مُنیر حسین عطاری علیہ رحمۃ ُاللہِ الْبَاری کی زَبان پر پورے راستے اِسی طرح بُلند آواز سے دُرود و سلام اور کَلِمَہ طَیِّبہ کا وِرْد جاری تھا. یہ مدنی منظر دیکھ کر ڈاکٹرز بھی حیران و شَشدر تھے کہ یہ زندہ کس طرح ہیں اور حواس اتنے بحال کہ بُلند آواز سے دُرود و سلام اور کَلِمَہ طَیِّبہ پڑھے جارہے ہیں! انکا کہنا تھا کہ ہم نے اپنی زندگی میں ایسا باحَوصَلہ اور باکمال مَرْد پہلی مرتبہ ہی دیکھا ہے. کچھ دیر بعد وہ خوش نصیب عاشقِ رسول ﷺ محمد مُنیر حسین عطاّری علیہ رحمۃُ اللہِ الْبَاری نےبارگاہِ محبوب ِباری عَزَّوَجَلَّ و صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم میں بصد بیقراری اِس طرح اِستِغاثہ کیا:

یارسولَ اللہ عَزَّوَجَلَّ و صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم آ بھی جایئے

یارسولَ اللہ عَزَّوَجَلَّ و صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم میری مدد فرمایئے

یارسولَ اللہ عَزَّوَجَلَّ و صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم مجھے مُعاف فرما دیجئے

اِس کے بعد بآوازِ بلند لَآ اِلٰہَ اِلَّاا للہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہِ (صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم) پڑھتے ہوئے جامِ شہادت نوش کر گئے. جی ہاں جو مسلمان حادِثہ میں فوت ہو وہ شَہْید ہے.

    واسِطہِ پیارے کا ایسا ہو کہ جو سُنّی مرے
    یوں نہ فرمائیں  تِرے شاھِد کہ وہ فاجِر گیا
                                   (حدائقِ بخشش شریف)

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! یہ واقِعہ ان دنوں مختلف اخبارات نے شائع کیا تھا. اَلْحمدُ لِلّٰہ عَزَّوَجَلَّ شَہْیدِ دعوتِ اسلامی محمد مُنیر حسین عطاری علیہ رحمۃُ اللہِ الْبَاری دعوتِ اسلامی کے ذِمّہ دارمُبلِّغ تھے اور حادِثہ کے ایک روز قَبل ہی عاشِقانِ رسول ﷺ  کے سنّتوں کی تربیّت کے مَدَنی قافِلے کے ساتھ سفر کرکے لوٹے تھے. مرحوم روزانہ صدائے مدینہ بھی لگاتے تھے. دعوتِ اسلامی کے مَدَنی ماحول میں نمازِ فجر کے لئے مسلمانوں کو جگانا ”صدائے مدینہ لگانا” کہلاتا ہے. اَلْحمدُ لِلّٰہ عَزَّوَجَلَّ بے شمار خوش نصیب اسلامی بھائی یہ سنّت ادا کرتے ہیں. جی ہاں نمازِ فجر کے لئے مسلمانوں کو جگانا سنّت ہے. چُنانچِہ حضرتِ سیِّدُنا ابو بَکرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ (جو کہ بنی ثَقیف کے ایک صَحابی ہیں) فرماتے ہیں،
"میں سرکارِ مدینہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ساتھ نَماز ِفجر کیلئے نکلا تو آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم جس سوتے ہوئے شخص پر گزرتے اُسے نماز کیلئے آواز دیتے یا اپنے پاؤں مبارَک سے ہِلاتے".
         (ابو داؤد شریف ج۲ ص۳۳ رقم الحدیث ۱۲۶۴)

جو خوش نصیب ”صدائے مدینہ” لگاتے ہیں اَلْحمدُ لِلّٰہ عَزَّوَجَلَّ ادائے سنَّت کا ثواب پاتے ہیں. یاد رہے پاؤں سے ہِلانے کی سب کو اجازت نہیں. صِرْف وہ بُزُرگ پاؤں سے ہِلا سکتے ہیں کہ جس سے سونے والے کی دل آزاری نہ ہوتی ہو. ہاں اگر کوئی مانِعِ شَرْعی نہ ہو تو اپنے ہاتھوں سے پاؤں دبا کر جگانے میں حَرْج نہیں. یقینا ہمارے میٹھے میٹھے آقا مدینے والے مصطَفٰے صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اگر اپنے کسی غلام کو مبارَک پاؤں سے ہِلا دیں تو اُس کے سوئے نصیب جگا دیں اور کسی خوش بخت کے سر، آنکھوں یا سینے پر اپنا مبارَک قَدم رکھدیں تو خدا کی قَسم! کونَین کاچین بخش دیں.

~       ایک ٹھوکر میں اُحُد کا زَلزلہ جاتا رہا
        رکھتی ہیں کتنا وقار اللہُ اکبر  اَیڑیاں

~     یہ دِل یہ جگر ہے یہ آنکھیں یہ سر ہے
       جدھر  چاہو   رکھو   قَدم   جان ِ   عالَم

اَلْحمدُ لِلّٰہ عَزَّوَجَلَّ ایسا لگتا ہے محمد مُنیر حسین عطاری علیہ رحمۃُ اللہِ الْبَاری کی خدمتِ دعوتِ اسلامی رنگ لائی اور انہیں آخِری وَقْت کَلِمَہ نصیب ہو گیا. اورجس کو مرتے وَقْت کَلِمَہ نصیب ہو جائے اُس کا آخِرت میں بیڑا پار ہے.  چُنانچِہ نبیِّ رَحْمت، شفیعِ امّت، مالِکِ جنّت، محبوبِ ربُّ العزَّت عَزَّوَجَلَّ و صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ جنّت نشان ہے،
"جس کا آخِری کلام لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ ہو وہ داخِلِ جنّت ہو گا". 
(ابو داؤد شریف،  ج ۳، ص ۱۳۲، رقم الحدیث ۳۱۱۶)

فضل و کرم جس پر بھی ہُوا اُس نے مرتے دَم کَلِمَہ
پڑھ لیا اور جنّت میں گیا لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہ

(فیضانِ سنت (جلد اوّل) باب فیضانِ بسم اللہ، ص ۳۵ مطبوعہ مکتبۃ المدینہ باب المدینہ کراچی ).

        اللہ کرم ایسا کرے  تجھ پہ  جہاں  میں
        اے دعوت اسلامی تیری دهوم مچی ہو

میرے میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! اگر آپ بھی گناہوں بهری اندھیری زندگی سے چھٹکارا پانا چاہتے ہیں تو ابھی اور اسی وقت دعوت حق دعوت اسلامی کا دامن تھام لیں. زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں. دعوت اسلامی کے تحت ہر جمعرات بعد نمازِ مغرب سنتوں بهرا اجتماع ہوتا ہے. خود بھی اس میں شریک ہوں اور دوسروں کو بھی اس میں شرکت کی دعوت دیں.ہر جمعرات بعد اجتماع ہزار ہا عاشقان رسول ﷺ مدنی قافلوں میں سفر کرتے ہیں. آپ سے بھی سفر کرنے کی مدنی التجا ہے. اللہ تعالٰی عزوجل نے چاہا تو ہزاروں نیکیاں سیکھنے کو ملیں گی. ہر کوئی اپنا یہ ذہن بنا لے کہ مجھے اپنی اور ساری دنیا کے لوگوں کی اصلاح کی کوشش کرنی ہے انشاءاللہ عزوجل.

طالب دعا : حافظ محمد احسان بشیر، فرسٹ ایئر ایم بی بی ایس، نشتر میڈیکل کالج، ملتان، پنجاب، پاکستان.

1 comment: