تحریر: حافظ محمد احسان بشیر، فرسٹ ایئر ایم بی بی ایس، نشتر میڈیکل کالج، ملتان، پنجاب، پاکستان.
فرمان مصطفیٰ ﷺ :
"جو مجھ پر روز جمعہ درود شریف پڑهے گا میں قیامت کے دن اس کی شفاعت کروں گا" (ضیائے درود و سلام ص ١١). سبحان اللہ عزوجل!
ﷺ ﷺ ﷺ ﷺ ﷺ ﷺ ﷺ ﷺ ﷺ ﷺ ﷺ ﷺ
عشق رسالت کے ترجمان امام احمد رضا خان
اعلیٰ حضرت، امام اھلسنت، حسان الہند، مجدد دین و ملت، ثانی ابو حنیفہ، حامی سنت، ماحی بدعت، مجدد اعظم، الشاہ امام احمد رضا خان فاضل بریلوی رضى الله تعالى عنه ١٠ شوال المکرم ١٢٧٢ھ بمطابق ١٤ جون ١٨٥٦ عيسوى کو بریلی شریف میں پیدا ہوئے. فاضل بریلوی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ شمالی بھارت کے شہر بریلی کے ایک مشہور عالمِ دین تھے جن کا تعلق فقہ حنفی سے تھا. اعلیٰحضرت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی وجہ شہرت میں اہم آپکی حضور ﷺ سے محبت، آپ ﷺ کی شان میں لکھے نعتیہ مجموعے اور آپ کے ہزارہا فتاویٰ کا ضخیم علمی مجموعہ جو ٣٠ جلدوں پر مشتمل فتاویٰ رضویہ کے نام سے موسوم ہے. فتاویٰ رضویہ کا پورا نام العطايا النبوية في الفتاویٰ رضویہ ہے. یہ بلند فقہی شاہکار ٢١٩٧٠ صفحات، ٦٨٤٧ سوالات کے جوابات اور ٢٠٦ رسائل پر مشتمل ہے جبکہ ہزاروں مسائل ضمناً زیر بحث آئے ہیں. برصغیر پاک و ہند میں اھلسنت کی ایک بڑی تعداد آپ ہی کی نسبت سے بریلوی کہلاتى ہے.
دینی علوم کی تکمیل گھر پر اپنے والد مولوی نقی علی خان رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ سے کی. دو مرتبہ حج بیت اللہ سے مشرف ہوئے. درس و تدریس کے علاوہ مختلف علوم و فنون پر کئی کتابیں اور رسائل تصنیف و تالیف کیے. قرآن مجید کا اردو ترجمہ بھی کیا جو کنز الایمان (ایمان کا خزانہ) کے نام سے مشہور ہے. جس کی خوبصورتی کا انکشاف تاج قرآن کمپنی بھی کر چکی ہے. علوم ریاضی و جفر میں بھی مہارت رکھتے تھے۔ شعر و شاعری سے بھی لگاؤ تھا. رسول اکرم ﷺ کی شان میں بہت سی نعتیں اور سلام لکھے ہیں. انہوں نے عربی، فارسی اور اردو میں ایک ہزار کے قریب کتب تصنیف کیں.
امام اھلسنت رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے چار برس کی ننھی عمر میں قرآن مجید مکمل ناظرہ پڑھ لیا تھا. چھ سال کی عمر میں منبر پر جم غفير کے سامنے میلاد شریف پڑھا. اردو، فارسی اور عربی پڑھنے کے بعد اعلیٰحضرت رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے والد ماجد مولانا نقی علی خان رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ سے عربی زبان میں دین کی اعلیٰ تعلیم حاصل کی اور تیرہ برس دس ماہ چار دن کی عمر میں مکمل عالم دین ہوگئے. ١٤ شعبان المعظم ١٢٨٦ھ بمطابق ١٩ نومبر ١٨٦٩ء میں آپ کو عالم دین کی سند دی گئی اور اسی دن والد محترم نے مولانا کے علمی کمال اور پختگی کو دیکھ کر فتاویٰ نویسی کی خدمت انکے سپرد کر دی. جسے مولانا نے ١٣٤٠ھ بمطابق ١٩٢١ء اپنی وفات تک جاری رکھا. اعلیٰحضرت رضی اللہ تعالیٰ عنہ اگر شریعت میں سید نا امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ تعالٰیٰ عنہ کے قدم بقدم ہیں تو طریقت میں سرکار غوث الاعظم رضى الله تعالى عنه کے نائب اکرم ہیں.
فاضل بریلوی ١٢٩٤ھ بمطابق ١٨٧٧ء میں اپنے والد ماجد مولانا نقی علی خان رحمۃ اللہ علیہ کے ہمراہ حضرت شاہ آل رسول رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور سلسلہ عاليہ قادریہ میں بیعت سے مشرف ہو کر اجازت و خلافت سے بھی نوازے گئے. مکہ معظمہ اور مدینہ طیبہ کے بڑے بڑے علماء كرام آپ کے علمی کمالات اور دینی خدمات کو دیکھ کر آپ کے نورانی ہاتھوں پر مرید ہوئے اور آپ کو استاد و پیشوا مانا ... تفصیل کے لیے دیکھیے مسعود ملت پروفیسر ڈاکٹر مسعود احمد رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کی کتاب "فاضل بریلوی علماء حجاز کی نظر میں"
اعلیٰحضرت رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ہوش سنبھالنے کے بعد اپنی ساری زندگی اسلام کے خدمت اور سنیت کی اشاعت میں صرف فرمائی اور تقریباً ایک ہزار کتابیں لکھیں جن میں فتاویٰ رضویہ بہت ہی ضخیم کتاب ہے. مولانا نے قرآن مجید کا صحیح ترجمہ اردو میں تحریر فرمایا جو عالم اسلام میں کنزالایمان فی ترجمۃ القرآن کے نام سے جانا جاتا ہے.
آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کے زمانے میں چند مٹھی بھر لوگوں کی قیادت میں انگریز اور دیگر باطل قوتوں کی مدد سے باطل فرقوں نے سر اٹھانا شروع کر دیا تها. آپ نے دین و شریعت کی حمایت میں ان سب باطل و گمراہ گروہوں سے تن تنہا لڑائی لڑ کر سب کے دانت کھٹے کرديے اور حق و باطل کو خوب واضح کر کے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کر دیا. آپ کے فتاویٰ اور کتب کے زریعہ اللہ تعالٰی عزوجل نے ہزاروں بہکے مسلمانوں کو ہدایت عطا فرمائی. بہت سے وہ علماء جو گمراہی کے سیلاب میں بہتے جارہے تھے، آپ کی رہنمائی سے انہوں نے حق قبول کیا اور سیدھی راہ پر ہوگئے. آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے محمد مصطفیٰ ﷺ کی محبت کا پرچم لہرایا اور مسلمانوں کو سرکار کی محبت و تعظیم کا سبق دیا اور گستاخان رسول ﷺ کی ایک نہ چلنے دی.
قرآن و حدیث، فقہ و منطق اور کلام وغیرہ میں آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کی وسعت نظری کا اندازہ آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کے فتاویٰ کے مطالعے سے ہی ہو سکتا ہے.آپ نے اردو، عربی، فارسی تین زبانوں میں نعت گوئی و منقبت نگاری کی.
آپ کا نعتیہ دیوان حدائق بخشش تین جلدوں میں ہے، پہلی دو جلدیں آپ کی حیات میں اور تیسری، بعد از وفات جمع کر کے شائع کی گئی، مگر اس میں رضا کا تخلص رکھنے والے ایک دوسرے عام سے شاعر کا عامیانہ کلام بھی غلطی سے شامل کر دیا گیا، جس پر کافی تنقید ہوئی، جس کو تحقیق کے بعد نکال دیا گیا. حدائق بخشش اردو نعتیہ شاعری کا ایک اہم سنگ میل ثابت ہوئی جس نے اپنے بعد آنے والے تمام نعت گوؤوں کو ادب کا جامہ پہنا دیا، ورنہ اس سے پہلے اردو نعت صرف عقیدت کے طور پر دیوان کے شروع میں شامل نظر آتی، مگر حدائق بخشش کے بعد نعت، اردو ادب کا ایک مستقل حصہ بن گئی. حدائق بخشش کی بہت سی نعتیں آج بھی مشہور و معروف ہے. مثلاً:
١. وہ سوئے لالہ زار پھرتے ہیں
٢. لم یات نظیرک فی نظر
٣. ان کی مہک نے دل کے غنچے کهلا دئیے ہیں
٤. سب سے اولی و اعلیٰ همارا نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام وغیرہ.
اور سب سے زیادہ خوبصورت بات یہ ہے کہ آپ کا محبت و عقیدت و عشق مصطفیٰ صل اللہ علیہ والہ وسلم میں ڈوبا سلام "مصطفیٰ جان رحمت پہ لاکھوں سلام" آج برصغیر پاک و ہند سمیت پوری دنیا میں جہاں جہاں اردو بولی اور سمجھی جاتی ہے انتہائی محبت اور عقیدت کے ساتھ ہر جمعہ کے بعد اور ہر دینی محفل میں پڑھا جاتا ہے. اگر میں یہ کہوں تو غلط نہ ہوگا کہ برصغیر پاک و ہند کا ہر بچہ خواہ اس کا تعلق اھلسنت گھرانے سے ہے یا دیوبندی، غیر مقلد یا شیعہ گھرانے سے وہ اس سلام سے ضرور واقف ہو گا.
آپ نے قرآن مجید کا ترجمہ کیا جو کہ اردو کے موجودہ تراجم میں سب پر فائق ہے۔ آپ کے ترجمہ کا نام "کنز الایمان" ہے۔ جس پر آپ کے خلیفہ صدر الافاضل مولانا سید نعیم الدین مراد آبادی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے حاشیہ لکھا ہے. کنز الایمان کا اب تک انگریزی، ہندی، سندھی، گجراتی، ڈچ، بنگلہ وغیرہ میں ترجمہ کیا جا چکا ہے.
٢٥ صفر المظفر ١٣٤٠ھ بمطابق ٢٨ أكتوبر ١٩٢١ء کو جمعة المبارك کے دن ہندوستان کے وقت کے مطابق ٢ بج کر ٣٨ منٹ، عین اذان کے وقت ادھر مؤذن نے حی على الفلاح کہا اور ادھر امام احمد رضا خان علیہ الرحمۃ الرحمن نے داعی اجل کو لبیک کہا۔ آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کا مزار پر انوار بریلی شریف میں آج بھی زیارت گاہ خاص و عام ہے.
ملک سخن کی شاہی تم کو رضا مسلم
جس سمت آ گئے ہو سکے بٹها دیے ہیں
No comments:
Post a Comment